Wednesday, October 14, 2015

اسلام میں جماعت اور امام کی ضرورت و اہمیت

اسلام میں جماعت اور امام کی ضرورت و اہمیت
قرآن مجید کے مطابق اسلام اکمل ترین دین ہے
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔ (المائدۃ۔5:4)    آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا
قرآنِ کریم بہترین کتاب ہے
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہَ۔۔۔(البقرۃ۔2:3)   یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں
مسلمان بہترین امّت ہیں
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔۔۔(آل عمران۔3:111)   تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے
مومنین سے فتح کا وعدہ کیا گیا ہے
وَ لَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ۔ (آل عمران۔3:140)   اور کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو۔جبکہ (یقینًا) تم ہی غالب آنے والے ہو اگر تم مومن ہو
تو پھر سوال یہ ہے کہ ان تمام بہترین خوبیوں کے باوجود امّتِ مسلمہ زوال کا شکار کیوں ہے
زوال کی وجوہات
اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل آیات اور احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ دیگر قوموں کی طرح ان وجوہات کے ظاہر ہونے پر، یعنی اللہ کی کتاب کو چھوڑنے، علماء و مشائخ کی اندھی پیروی کرنے اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے باعث مسلمان بھی زوال اور غیر قوموں کے غلبہ کا شکار ہوجائیں گے
قرآنِ کریم کا ترک کرنا
وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ الْمَھْجُوْرًا (الفرقان۔25:31)
اور رسول کہے گا اے میرے ربّ! یقینًا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔
یاتی علی الناس زمان لا یبقیٰ من الاسلام الا اسمُہٗ ولا یبقیٰ من القرآن الا رسمُہٗ۔بیہقی شُعَبِ الایمان (مشکوٰۃ کتاب العلم۔الفصل الثالث)
لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے۔
علماء کی اندھی پیروی کرنا
اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔۔۔ (التوبۃ۔9:31)
انہوں نے اپنے علمائے دین اور راہبوں کو اللہ سے الگ ربّ بنا رکھا ہے
حضرت عدی ؓ بن حاتم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے قرار دئیے گئے حلال کو حلال اور انکے  قرار دئیے گئے حرام کو حرام سمجھتے تھے۔(ترمذی کتاب التفسیرباب تفسیر سورۃ التوبۃ)
فرقہ واریت
یقینًا بنی اسرائیل72 فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے جبکہ میری امّت73 فرقوں میں تقسیم ہوں گے۔ یہ تمام آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے۔ صحابہؓ کرام نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ الجماعۃ ہے۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن؛  ابوداؤد کتاب السنّۃ)
کیا اب ایسا نہیں ہورہا؟
’’حضرت ثوبانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عنقریب قومیں ایک دوسرے کو تم پر دعوت دیں گی جیسے کھانے پر ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں۔ صحابہؓ کرام نے پوچھا کہ کیا ہم اس وقت قلیل ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں تم کثیر تعداد میں ہوں گے لیکن سیلاب میں بہنے والے کوڑے کرکٹ کی طرح ہوگے، دشمن کے دل سے تمہارا رعب جاتا رہے گا اور تمہارے دلوں میں وہن داخل ہوجائے گا۔ صحابہؓ کرام نے پوچھا کہ وہن کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔‘‘ (ابوداؤد کتاب الملاحم)
آج کل کے حالات کے مشاہدہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زوال کی مندرجہ بالا وجوہات امت مسلمہ میں ظاہر ہوچکی ہیں اور اس کا نتیجہ بھی ظاہر ہوچکا ہے جس کے متعلق مندرجہ بالا حدیث میں خبر دی گئی ہے۔ یعنی مسلمانوں میں دنیا کی محبت اور موت کے خوف کا ظاہرہوچکی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ غیر قوموں نے سیاسی، اقتصادی، اور فوجی اتحاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے اور عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرکے ایک دوسرے کو اسے ہڑپ کرنے کی دعوت دے رہی ہیں ۔
ان مسائل کا اسلامی حل
وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ۔۔۔( البقرۃ2:44.) اور جھکنے والوں کے ساتھ جھک جاؤ۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا  تَفَرَّقُوْا۔۔۔( آل عمران3:104.)
اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ نہ کرو
کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔۔۔ ( التوبۃ9:119.)   سچوں کے ساتھ ہوجاؤ
کتاب اور معلم لازم و ملزوم
ان آیات سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ کتاب کے ساتھ ایک معلم ضروری ہے جو اس کتاب میں دی گئی تعلیم کا عملی مظاہرہ کرکے ہمیں سکھاتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل کیسے کرنا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ خود معلم اس تعلیم کے خلاف نہ تو کوئی بات کرسکتا ہے اورنہ ہی کوئی مخالف عمل۔ اسی لئے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے جب نبی اکرم ﷺ کے اخلاق فاضلہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا ’’کان خلقہٗ القرآن‘‘ یعنی ان کے سارے اخلاق قرآن کے مطابق ہی تھے۔ اس لئے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ نبی اکرم ﷺ قرآن کے مخالف کوئی بات یا عمل کریں اور نتیجۃً کسی صحیح حدیث اور قرآن میں کوئی تضاد پیدا ہو۔ ایسا ثابت کرنا تو دور کی بات گمان کرنا بھی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان تفریق پیدا کرنے کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
[4:151] إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُونَ بِاللّہِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیْدُونَ أَن یُفَرِّقُواْ بَیْنَ اللّہِ وَرُسُلِہِ وَیْقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُونَ أَن یَتَّخِذُواْ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیْلا
کتاب اور معلم کا باہمی مضبوط تعلق اور امت مسلمہ کے لئے دونوں کا لازم و ملزوم ہونا مندرجہ ذیل آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ محض کتاب نہیں بلکہ وہ رسول ، جس پر وہ کتاب یا تونازل کی جاتی ہے یا بطور وراثت عطا کی جاتی ہے،  لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۔وہ اس کتاب کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے لئے نمونہ بنتا ہے اور پھر اس نمونہ کی پیروی کرتے ہوئے لوگ اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آتے ہیں۔
[14:2] الَر کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ
صداقتِ رسول کے گواہ۔ اللہ تعالیٰ اور کتاب کا علم رکھنے والا
اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے علاوہ کتاب کا علم رکھنے والے کو سچے رسول کی صداقت کا گواہ قرار دیا ہے:
[13:44] وَیَقُولُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ کَفَی بِاللّہِ شَہِیْداً بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِندَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ
عن حذیفہ بن الیمان ؓ۔۔۔قَالَ ﴿رَسُوْلُ اَللّٰہِ ﴾: تَلْزَمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ، قُلْتُ: فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُمْ جَمَاعَةٌ وَ لَا اِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا وَلَوْ اَنْ تَعَضَّ بِاَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَ اَنْتَ عَلیٰ ذٰلِکَ ﴿صحیح البخاری، کتاب الفتن، صحیح مسلم کتاب الامارة، و سنن ابن ماجة کتاب الفتن،و سنن ترمذی ابواب الفتن﴾
حضرت حذیفہ بن یمانؓ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا۔ میں نے کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہوا تو پھر؟ آپ نے فرمایا کہ تمام فرقوں سے الگ رہنا اور کسی جنگل میں درخت کی کھوہ میں بیٹھ رہنا اور اس کی جڑوں کو چبانا یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے۔‘‘ (بخاری کتاب الفتن باب کیف الامر اذ لم تکن جماعۃ)
رسول الله يقول : إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يقاتل من ورائه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن قال بغيره فإن عليه منه
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام ڈھال ہوتا ہے۔اس کے پیچھے ہو کر لڑو۔‘‘ ﴿بخاری کتاب الجہاد باب یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِ الْاِمَامِ وَ یُتَّقِیْ بِہِ﴾
’’عَنْ مُعَاوِیَۃ قال: قال رسولُ اللّٰہ مَنْ مَاتَ بِغَیْرِ اِمَامٍ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو امام کے بغیر مرے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد۔مسند الشامیین حدیث معاویہ بن ابی سفیان)
 "وَ اَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْس   ٍ اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ: السَّمْعَ وَ الطَّاعَةَ وَالْجِھَادِ وَ الْھِجْرَةِ وَ الْجَمَاعَةِ، فَاِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ اِلَّا اَنْ یَرْجِعَ۔"﴿سنن الترمذی، ابواب الامثال )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم کو پانچ باتوں کی نصیحت کرتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ اور وہ ہیں سمع، طاعت، جہاد، ہجرت اور جماعت۔اور جس نے جماعت سے ایک قدم بھی باہر نکالا اس نے اسلام کا جؤا  اپنی گردن سے اتاردیا یہاں تک کہ وہ واپس آجائے۔
مرض کی نشاندہی کے بعدمندرجہ بالا آیات اور احادیث میں مسلمانوں کو زوال سے نکلنے اور اسلام کو دوبارہ ایک غالب دین بنانے کا علاج بھی تجویز کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ فرقہ واریت کو ترک کرکے متحد ہوکر ایک امام اورایک جماعت کے ساتھ چمٹ جائیں۔ اس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آج کے دور میں وہ کون سی جماعت اور وہ کون سا امام ہے جس کے ساتھ ہم چمٹ سکیں۔ گہرے اور بغور مطالعہ و مشاہدہ کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس وقت احمدیہ مسلم جماعت ہی وہ واحد جماعت ہے جو جماعت کی تعریف پر پوری اترتی ہے اور سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی وہ واحد امام ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر فائز کئے جانے کا دعویٰ فرمایا ہے۔
امام الزمان  حضرت مرزا غلام احمد قادیانی
الامام المہدی و المسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
’’اے مسلمانو! اگر تم سچے دل سے حضرت خداوند تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہو اور نصرتِ الٰہی کے منتظر ہو تو یقینًا سمجھو کہ نصرت کا وقت آگیااور یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بنا ڈالی۔بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہوگئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا۔قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اس کے باشفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھالیا سو شکر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری زندگی کا دن آگیا۔ خداتعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع نہیں کرنا چاہتا وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو۔وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے۔کیا اندھیری رات کے بعد نئے چاند چڑھنے کی انتظار نہیں ہوتی۔ کیا تم سلخ کی رات کو جوظلمت کی آخری رات ہے دیکھ کر حکم نہیں کرتے کہ کل نیا چاند نکلنے والا ہے۔ افسوس کہ تم اس دنیا کے ظاہری قانونِ قدرت کو تو خوب سمجھتے ہو مگر اس روحانی قانونِ فطرت سے جو اسی کا ہم شکل ہے بکلّی بے خبر ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ ۴۔۵، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۰۴، ۱۰۵)
خلافت احمدیہ
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًاط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ٭ (النور ۔24:56 )
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَآ ئَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اَنْ یَرْفَعَھَا ۔ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ فَتََکُوْنُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ یَرْفَعَھَا ۔ ثُمَّ تَکُوْنَ مُلْکًا عَاضًا فَیَکُوْنُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ یَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اَنْ یَرْ فَعَھَا ۔ ثُمَّ یَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً فَتَکُوْنُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اَنْ یَرْفَعَھَا ۔ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ۔ ثم سکت ‘‘ (مسند احمد بن حنبل مسند الکوفیین حدیث نعمان بن بشیرؓ و مشکوٰۃ المصابیح باب الانذار و التحذیر)
حضرت حذیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں نبوّت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ پھر خدا تعالیٰ نبوّت کو اٹھالے گا اور پھر اس کے بعد نبوّت کے طریق (منہاج) پر خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ پھر خدا تعالیٰ خلافت کو اٹھالے گا۔ پھر ایک کاٹنے (قتل و غارت ) والی بادشاہت آئے گی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ پھر ایک جوروجبر والی بادشاہت ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوّت قائم ہوگی۔ پھر رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔
حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیؑح الخامس، ایّدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روحانی قیادت میں احمدیہ مسلم جماعت چہار دانگ عالم میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔

No comments:

Post a Comment