Wednesday, October 14, 2015

دیوبندی سیاست کے اصول

دیوبندی سیاست کے اصول

’’اسلام اور سیاست‘‘ دیوبندی فرقہ کے ایک اہم عالمِ دین مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے مجموعۂِ افادات اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے رسالہ ’’حکیم الامت کے سیاسی افکار‘‘پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ تھانوی مکتبۂ فکر دیوبندی فرقہ میں، مولانا حسین احمد مدنی صاحب، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اور دیگر کانگرس نواز علماءِ دیوبند کے برعکس، حکومت و سیاست کے حوالہ سے اپنی ایک الگ اور ممتاز رائے رکھتا ہےاور حکومتِ وقت کی، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم،مکمل اطاعت و تابعداری کا اس حد تک قائل ہے کہ بغیر ٹکٹ سفر کرنا، کم درجہ کی ٹکٹ لے کر اعلیٰ درجہ میں بیٹھنا، کم محصول دے کر زیادہ سامان لیجانا اور ڈاک کی ایسی ٹکٹوں کو جن پر مہر نہ لگی ہو دوبارہ استعمال کرنا حکومت کی چوری، بدعہدی اور خیانت میں شمار کرتا ہے،پُرامن ماحول مہیا کرنے پر حکومتِ وقت کا شکرگزار ہونے کی تلقین کرتا ہے، ملک میں امن و امان قائم رکھنا چاہتا ہے اور حکومتِ وقت کے خلاف کسی قسم کی شورش اور فتنہ و فساد کو سختی سے ناپسند کرتا اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ناجائز قرار دیتا ہے۔اشرف علی تھانوی صاحب نے نہ تو خود کسی انگریز مخالف تحریک میں حصہ لیا اور نہ ہی اپنے کسی مرید کو ایسا کرنے کا حکم دیا بلکہ اس دور کی سیاسی جماعتوں خصوصًا کانگریس کی گھیراؤ جلاؤ ، ترک موالات اورسول نافرمانی کی تحریکوں کو ناپسند قرار دیتے ہوئے اپنے مریدوں کو ان سے الگ رہنے کی تلقین کی، علماء کاعملی سیاست میں حصہ لینا شرعی طور پر ناپسندیدہ قرار دیااور  بنی اسرائیل کی ایک مثال کے ذریعہ، جس میں انہوں نے وقت کے نبی کو اپنے لئے ایک بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی، یہ بتایا کہ نبی کے لئے سیاست میں حصہ لینا ضروری نہیں ہے۔ مسلمانوں کا عظمتِ رفتہ کے نام پر اپنی حکومت دوبارہ قائم کرنے کی کوششوں کو بھی انہوں نے اصلاح المسلمین سے مشروط کیا اور کہا کہ دس سال تک ہر قسم کی تحریک کو بند کردیا جائے اور ایک واجب الاطاعت امیر مقرر کرکے سارا زور مسلمانوں کی اصلاح پر صرف کیا جائے۔اس کے بعد اگر مسلمان اس قابل ہوئے کہ وہ ایک ریاست قائم کرسکیں تب کسی حکومت سازی کی طرف قدم بڑھایا جاسکے گا۔

 اسلام کو سیاسی نہیں بلکہ سیاست کو اسلامی بناؤ

’’اسلام کی تعلیمات چونکہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں جن میں سیاست بھی داخل ہے، اس لئے اسلام میں سیاست کو دین و مذہب سے بے تعلق رکھنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔چنانچہ عہد حاضر میں بہت سے مسلمانوں نے عیسائیت اور سیکولر ازم کے اس باطل نظرئیے کی پرزور تردید کی، اور یہ ثابت کیا کہ سیاست کو دین سے الگ نہیں کیا جاسکتا، بقول اقبال مرحوم ؔ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ لیکن سیکولرازم اور دین و سیاست کی تفریق کے اس نظریے کی پرزور تردید کرتے ہوئے بہت سے مسلمان مفکرین اور اہل قلم سے ایک نہایت باریک غلطی واقع ہوگئی جو دیکھنے میں بڑی باریک اور معمولی تھی لیکن اس کے اثرات بہت دوررس تھے۔ اس باریک غلطی کو ہم مختصر لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو اسے اس طرح تعبیر کرسکتے ہیں کہ انہوں نے ’’سیکولرازم ‘‘ کی تردید کے جوش میں سیاست کو اسلامی بنانے کی بجائے اسلام کو سیاسی بنادیا، کہنا یوں تھا کہ ’’سیاست‘‘ کو دین سے الگ نہ ہونا چاہئے لیکن کہا یوں کہ دین کو سیاست سے الگ نہیں ہونا چاہئے۔‘‘(صفحہ17)
’’یہ بات مشہور ہے کہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ ہندوستان کی سیاسی تحریکات سے الگ رہے، اس دوران ایک صاحب نے یہ پیش کش کی کہ ہم آپ کو امیرالمومنین بناتے ہیں۔آپ ہماری قیادت فرمائیے حضرت نے اس پیش کش کا مناسب جواب دینے کے بعد فرمایا۔ ’’سب سے پہلے جو امیرالمومنین ہوکر حکم دوں گا وہ یہ ہوگا کہ دس برس تک سب تحریک اور شوروغل بند۔ان دس سالوں میں مسلمانوں کی اصلاح کوشش کی جائے گی۔ جب یہ قابل اطمینان ہوجائیں گے تب مناسب حکم دوں گا۔‘‘(الافاضات الیومیہ ص۔76ج2ملفوظات89 لقب بہ تدبیر الفلاح) اگر ہم حقیقت پسندی سے اپنے حالات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے اس اقتباس میں ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے، اگر آج ہماری سیاست کی بیل منڈھے نہیں چڑھتی تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم مکی زندگی کے تیرہ سال کی چھلانگ لگا کر پہلے ہی دن سے مدنی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ہم اپنے آپ کو اخلاقی اور روحانی اعتبار سے تیار کئے بغیر اصلاح قوم کا جھنڈا لے کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جھنڈا کس طرح پکڑا جاتا ہے؟ نہ ہمیں یہ پتہ ہے کہ اسے سربلند رکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ نہ ہم نے اس کام کی کوئی تربیت حاصل کی ہے، بس ہم نے کچھ دوسری قوموں کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے جھنڈا اٹھائے دیکھا تو انہی کی نقالی ہم نے بھی شروع کردی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جدوجہد کا طرزوانداز، ہماری کوششوں کا طریق کار، ہماری اختیار کی ہوئی تدبیریں، تقریبًا سب کی سب وہ ہیں جو ہم نے دوسری قوموں سے مستعار لی ہیں، اور ان کو شریعت کی کسوٹی پر صحیح طریقے سے پرکھے بغیر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جب ان طریقوں سے لادینی سیاست کامیاب ہوسکتی ہے تو اسلامی سیاست بھی کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔ حالانکہ اسلامی سیاست کو لادینی سیاست پر قیاس کرنا کھجور کے درخت کو کنویں پر قیاس کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ (صفحہ 46,47)

ارباب حل و عقد کا اجتماع و اتفاق تمام مومنین کا اجتماع و اتفاق

’’خلاصہ یہ کہ عام مومنین کا اجتماع ہروقت دشوار ہے تو اس ضرورت سے عام مومنین میں جو ذی اثر لوگ ہوں گے۔جیسے علماء و رؤساء، امرا، سلاطین، جن کو اہل حل و عقد کہا جاتا ہے وہ ان کے قائم مقام سمجھے جائیں گے اور ان ذی اثر لوگوں کا اجتماع (و اتفاق) عام مومنین کا اجتماع قرار دیا جائے گا۔(افاضات الیومیہ ص10/220)‘‘ (صفحہ 96)

مسلمانوں کی ناکامی کی وجہ:

’’اس وقت سب سے بڑی وجہ ناکامی کی یہی ہوئی کہ مسلمانوں کے سر پر کوئی بڑا نہیں، نہ مسلمانوں کی قوت کسی مرکز پر جمع ہے اور نہ ہوسکتی ہے جب تک کہ بالاتفاق ایک کو بڑا نہ بنا لیں۔ اگر امام ہو تو سب کام ٹھیک ہوسکتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۔54)

’’۱:۔اصل چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں دین پیدا ہو۔۲:۔ ان کی قوت ایک مرکز پر جمع ہو ۳:۔ ان کا کوئی امیر ہو۔ میں بقسم عرض کرتا ہوں اور خدا کی ذات پر بھروسہ کرکے کہتا ہوں کہ اگر مسلمان مضبوطی کے ساتھ اپنے دین کے پابند ہوجائیں۔اور تمام آپس کے جھگڑوں کو ختم کرکے متحد ہوجائیں۔اور اپنی قوت کو ایک مرکز پر جمع کرلیں۔اور جس کو اپنا خیرخواہ سمجھ کر بڑا بنائیں اس کے کہنے اور مشوروں پر عمل کریں۔ اس کی اتباع سے اعراض نہ کریں تو پھر نہ اس کو کسی کی شرکت کی ضرورت نہ کسی سے خوف نہ ان کا کوئی کچھ بگاڑ سکتا ہے۔(الافاضات الیومیہ ص1/124)‘‘( صفحہ 125)

حکام سے مقابلہ عقلمندی نہیں

’’حکام سے مقابلہ کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ حکام سے تو مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ میں مسلمانوں سے کہا کرتا ہوں کہ اپنے وقت کے حاکموں کو ناراض نہ کرو یہ طریقہ بہت نقصان پہنچاسکتا ہے۔۔۔ایسا کوئی کام نہ کرنا چاہئے جس میں حاکم کی ناراضگی ہو۔ کیونکہ اس کا انجام قریب بہ ہلاکت ہے اور لمبی مدت تک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور ایسے خطرات سے نفس کی حفاظت کرنا شرعًا مطلوب ہے۔(بیان القرآن ص1/10)‘‘

’’حکومت شکر کی مستحق ہے اس کے خلاف شورش نہیں کرنی چاہئے‘‘

’’جس وقت حضور ﷺ مکہ معظمہ سے طائف تشریف لے گئے کہ شاید وہاں کے باشندے مسلمان ہوجائیں اور وہاں تکلیف سے نجات ملے وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ نہایت گستاخانہ سلوک کیا تو آپ بددل ہوکر پھر مکہ معظمہ واپس تشریف لائے اور مطعم بن عدی کو اطلاع فرمائی کہ اگر مکہ والے مجھے امن دیں تو میں شہر میں رہوں ورنہ کسی دوسری جگہ چلا جاؤں۔ اس وقت مطعم بن عدی نے مکہ والوں سے کہا کہ میں نے محمد ﷺ کو پناہ دی۔ خبردار کوئی ان کو ہاتھ نہ لگائے۔ چنانچہ اس وقت ہجرت مدینہ تک حضرت ﷺ مطعم بن عدی کی پناہ کی وجہ سے مکہ میں تشریف فرمارہے۔ ان کی اس ہمدردی کا حضور ﷺ ہمیشہ شکریہ ظاہر فرماتے تھے۔ اسی کے صلہ میں اس وقت جب کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو غلبہ ہوا اور بہت سے کفار مارے گئے اور بہت سے قید ہوکر آئے تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان کفار کے متعلق گفتگو کرتے تو میں ان کی خاطر چھوڑ دیتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضور ﷺ ان کی شکرگزاری کے لئے ایسا فرماتے تھے۔ اس وقت بعینہہ یہی حالت ہے ان احکام کے ساتھ کو جس طرح مطعم بن عدی نے حضور ﷺ کی حمایت کی تھی اور آپ ان کے ممنون اور شکرگزار تھے اسی طرح حکام وقت ہمارے محافظ ہیں اور ہمارے امن کے ذمہ دار ہیں ہم کو بھی ان کا شکرگزار ہونا چاہئے جس کا ادنیٰ اثر یہ ہونا چاہئے کہ کوئی ایسی شورش نہ کریں جس سے حکام تشویش میں پڑ جائیں۔‘‘ (ص196,197)

عہد و پیمان کے خلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں

’’ جب مسلمان رعایا بن کر ہندوستان میں رہے اور حکام سے (اس بات کا) عہد و پیمان کرچکے کہ کسی حاکم یا رعایا کے جان و مال میں دست اندازی نہ کریں گے اور کوئی امر خلاف اطاعت نہ کریں گے تو مسلمانوں کو عہد و پیمان کے خلاف کرنا یا حکام کی کسی قسم کی مخالفت یا خیانت کرنا ہرگز درست نہیں اور نہ ہی رعایا کے ساتھ عہد کے خلاف اور خیانت کرنا (یعنی ہندو وغیرہ کے ساتھ) درست ہے۔۔۔پس مسلمانوں کو اپنے عہد کے موافق حکام کی تابعداری جس میں کچھ معصیت نہ ہو ضروری ہے اور کسی قسم کی بغاوت اور مخالفت اور مقابلہ اور خیانت جائز نہیں‘‘ (ص۔199,200)

غیر ملکی مسلمان حملہ آور قوموں کی مدد کرنا سخت گناہ ہے

’’اگر کوئی مسلمان یا غیر مسلمان ہمارے حکام کے مقبوضہ ممالک سے خارج ہیں (یعنی غیر ملکی) ان ہمارے حکام کے ساتھ مقابلہ اور لڑائی کرنے اور ان پر حملہ کرکے آئیں تو ہم کو اس قوم کے ساتھ ہونا اور ان کو مدد دینا بھی ہرگز درست نہیں کیونکہ یہ بھی عہد کے خلاف ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ و ان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر الا علی قوم بینکم و بینھم میثاق ’’یعنی اگر اہل اسلام مدد چاہیں تم سے دین کے مقابلہ میں۔پس تمہارے اوپر مدد کرنا ضروری ہے مگر اس قوم کے معاملہ میں تمہارے اور ان کے درمیان عہد ہوچکا ہے‘‘مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کا ان لوگوں سے مقابلہ ہو جن سے تم عہد و پیمان کرچکے ہو تو مسلمانوں کا ساتھ مت دو پس مسلمانوں کو ہر حال میں اپنے عہد کی رعایت کرنی چاہئے نہ خود مخالفت کریں نہ کسی مخالف کی اعانت کریں اگر اس کے خلاف کریں گے تو سخت گنہگار اور مستحق عذاب ہوں گے۔‘‘ (ص200,201)

غیر مسلم حکومت میں رعایا بن کر رہنے کا حکم

’’حضرت مولانا گنگوہی قدس سرہ نے اپنے ایک فتویٰ میں فرمایا ہے جو ذیل میں منقول ہے۔سوال:۔ یہ ملک ہندوستان جو سو برس سے زائد مسیحی حکام کے مملوکہ و مقبوضہ ہے اور ان کی رعایا میں ہنود وغیرہ مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں اور ہم لوگ مسلمان بھی زیر حکومت آباد ہیں۔ تو مسلمانوں کو اس ملک میں حکام کی رعایا بن کر رہنا چاہئے یا نہیں۔ اور ہم مسلمانوں کو اپنے ان حکام کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے۔ اور نیز ہندوؤں وغیرہ رعایا کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے۔الجواب:۔ چونکہ قدیم سے مذہب، اور جملہ مسیحی لوگوں کا قانون یہ ہے کہ کسی کی ملت اور مذہب سے پرکاش اور مخالفت نہیں کرتے اور نہ کسی مذہبی آزادی میں دست اندازی کرتے ہیں۔ اور اپنی رعایا کو ہر طرح سے امن و حفاظت میں رکھتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو یہاں ہندوستان میں جو کہ اہل مسیحی کا مملوکہ و مقبوضہ ہے رہنا اور ان کی رعیت بننا درست ہے۔چنانچہ جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ملک حبشہ میں جو نصاریٰ کا مقبوضہ تھا بھیج دیا۔ اور یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ وہ کسی کے مذہب میں دست اندازی نہیں کرتے تھے۔‘‘ (ص۔201)

No comments:

Post a Comment