Wednesday, October 14, 2015

احادیث کے متعلق متضاد اصول
احادیث کے ردّ و قبول کے لئے ان علماء نے اپنے معیار وضع کررکھے ہیں۔ جو حدیث اپنے فقہ اور عقیدے کے مطابق ہو اسے قبول کرلیتے ہیں۔
 ’’حضرت مولانا رشید احمد صاحب کو میں نے سُنا کہ فرماتے تھے : یہ حدیث ہرچند کہ موقوف جابر رضی اللہ عنہ پر ہے لیکن مرفوع کے حکم میں  ہے کیونکہ احکام کے متعلق ہے کہ صحابی اپنی طرف سے یہ استثناء نہیں کرسکتا تھا۔‘‘ (تذکرۃ الرشید از عاشق الٰہی۔ حصہ اوّل صفحہ۔92)

 ’’لیکن یہ بات نہ بھولنی چاہئے کہ صحاح ستّہ کی اکثر احادیث بھی تو قطعی الثبوت نہیں ہیں۔‘‘ (مقدمہ تحذیر النّاس از علامہ خالد محمود صفحہ۔۹)

’’۔۔۔فن رجال سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والے حضرات بھی بخوبی اس امر سے واقف ہیں کہ کوئی بھی ایسا ثقہ جس پر جرح کا کوئی کلمہ منقول نہ ہو یا ایسا ضعیف جس کو کسی ایک نے بھی ثقہ نہ کہا ہو کبریتِ احمر کے مترادف ہے۔ حضرات صحابہ کرام ؓ کا رتبہ کس سے مخفی ہے؟ اور الصحابۃ کلہم عدول کے جملہ سے کون اہل علم ناواقف ہے؟ مگر خوارج اور روافض کا نظریہ بھی ان کے بارے میں پوشیدہ نہیں ہے۔۔۔فہم صحابی اور موقوف صحابی حجّت نہیں ہے خصوصًا قرآنِ کریم، صحیح احادیث اور جمہور حضرات صحابہ کرام ؓ کے آثار کے مقابلہ میں۔‘‘ (احسن الکلام فی ترک القرأۃ خلف الامام از سرفراز خان صفدر۔ صفحہ۔61, 156)

’’اس گروہ کے نزدیک حدیث تب قابل حجت ہے جب اس سے ان کا کوئی فقہی مسئلہ یا ان کا خودساختہ عقیدہ و مسلک ثابت ہوتا ہو، چاہے وہ روایت مسلّمہ اصولِ تحقیق کی رو سے پایۂ اعتبار سے ساقط ہو۔ لیکن جو حدیث اس کے برعکس ہو، چاہے وہ سند کے اعتبار سے کیسی ہی اعلیٰ درجہ کی ہو، وہ ان کے نزدیک ناقابلِ اعتبار ہے۔ چنانچہ صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایات سے، جن کی صحت پر علماء وفقہائے امت کا اتفاق ہے، جان چھڑانے کے لئے ان کے ثقہ راویوں کو مجروح ثابت کرنا اور تیسرے چوتھے درجے کی کتب احادیث سے یکسر ضعیف اور ناقابل اعتبار روایات سے استدلال کرکے اپنے مزعومہ عقائد اور مسائل فقہ کو ثابت کرنا اس گروہ کا دلچسپ مشغلہ ہے۔ اور اس میں امانت و دیانتِ علمی کا جس طرح خون کیا جاتا ہے اور خوفِ خدا سے بے نیازی کا جس دیدہ دلیری سے ارتکاب کیا اجاتا ہے وہاں سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ اس کی تفصیل ’’التنکیل‘‘ وغیرہ کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔‘‘ (اہلِ حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت و نوعیت ۔ مصنف حافظ صلاح الدین یوسف ۔صفحہ 57۔ ناشر ام ا لقریٰ پبلی کیشنز گوجرانوالہ۔ سن اشاعت جولائی 2012)

’’یہی حال ان احادیث کی صحت و ضعف کے معاملے میں ہے جو اختلافی مسائل میں مدارِبحث بنتی ہیں۔ ان میں نہایت بے خوفی کے ساتھ امانت و دیانت کا خون کرکے ثقہ راویوں کو ضعیف اور ضعیف راویوں کو ثقہ ثابت کرنے پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے جس کی تفصیل ’’التنکیل بما في نأنیب الکوثری من الأباطیل‘‘ (تالیف شیخ عبدالرحمٰن بن یحیٰی یمانی) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اس میں ایک لطیفہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی اپنی کسی من پسند روایت میں ہوتا ہے تو اسے اس وقت ثقہ باور کرایا جاتا ہے اور وہی راوی جب اس روایت میں آتا ہے جس سے دوسرا فریق استدلال کرتا ہے تو وہ ضعیف قرار پاتا ہے۔ ایک اورلطیفہ یہ ہوتا ہے کہ ایک حدیث میں دو تین باتیں ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی ایک بات تو قبول کرلی جاتی ہے کہ اس سے ان کے کسی فقہی مسئلے کا اثبات ہوتا ہے اور دوسری باتیں ردّ کردی جاتی ہیں کیونکہ وہ فریقِ مخالف کے موافق ہوتی ہیں، حالانکہ حدیث ایک ہے سند ایک ہے۔ اگر وہ حدیث صحیح ہے تو اس میں بیان کردہ ساری ہی باتیں صحیح ہیں، ان میں سے کسی بات کو مان لینا اور بعض کو نہ ماننا، اسے کون معقول طرز عمل قرار دے سکتا ہے؟ اسی طرح اگر وہ ضعیف ہے تب بھی معاملہ ایسا ہی ہے، اس کی ساری باتیں ناقابل تسلیم ہونی چاہئیں، اس کا کوئی ایک جز قابل استدلال نہیں ہوسکتا۔ یہ لطائف ہمارے فقہی جدل و مناظرہ میں عام ہیں۔ ظاہر بات ہے امانت و دیانت کی موجودگی میں ان کا امکان ہے نہ جواز ہی ہے۔‘‘ (ایضًا صفحہ۔93,94)

’’اس گروہ کے اس دور کے سرخیل مولانا امین اوکاڑوی ہیں، جو چند سال قبل فوت ہوئے ہیں۔ اسی گروہ کے ایک ’’شیخ الحدیث والتفسیر‘‘ منور احمد صاحب ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’بارہ مسائل‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔ یہ کتاب مغالطات و تلبیسات بلکہ کذبات و خداعات کا مجموعہ ہے۔ موصوف اس کے حصہ اوّل میں تحریر کرتے ہیں: ’’احادیث کی صحت و ضعف کے بارے میں ہمارا اصول یہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ حضرات نے آثار صحابہ اور آثار تابعین و تبع تابعین اور عملی تواتر کی روشنی اور رہنمائی میں اپنے اجتہادی اصولوں کے تحت جن جن احادیث کے معمول بہ و صحیح ہونے کا فیصلہ فقہی مسائل کی صورت میں دیا ہے ہمارے نزدیک وہی صحیح ہیں، اگرچہ محدثین ان کو سند کے اعتبار سے ضعیف لکھ دیں اور جن حدیثوں کو ان حضرات نے غیر معمول بہا قرار دیا ہے وہ ہمارے نزدیک ضعیف ہیں، اگرچہ محدثین ان کو سندًا صحیح قرار دیں۔’’  کتاب ’’بارہ مسائل‘‘، ص: 9، ناشر ’’اتحاد اہل السنّت و الجماعت‘‘ ملنے کا پتہ: مرکز اہل السنّت والجماعت، 87جنوبی لاہور روڈ، سرگودھا، مطبوعہ دسمبر2005)‘‘ (ایضًا صفحہ۔99)

مجتہد کا کسی حدیث سےاستدلال اس حدیث کی صحت کا معیار ہے
’’اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اگر کوئی مجتہد کسی حدیث سے استدلال کرتا ہے تو گویا وہ پہلے اس حدیث کے صحیح ہونے کا حکم لگاتا ہے۔ پھر اس سے استدلال کرتا ہے۔ اس اصول کے پیش نظر جب سلف صالحین اس پیشگوئی کے معتقد رہے تو انہوں نے اس سلسلے کی وارد شدہ احادیث کو صحیح قرار دے دیا۔ پھر بعد میں سند کے ضعیف ہونے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑسکتا۔‘‘ (اسلام میں امام مہدی کا تصور۔ ص230۔ مصنف ظفر اقبال فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور۔بیتُ العلوم نابھہ روڈ پرانی انارکلی لاہور)

’’ مرسل  اور بلاغات  والی روایت زہری کی ہو یا کسی دوسرے تابعی کی ہمیشہ ضعیف و ناقابل حجت ہوتی ہے۔‘‘ (توفیق الباری فی تطبیق القرآن و صحیح البخاری از حافظ زبیر علی زئی۔ صفحہ۔25)

No comments:

Post a Comment