Wednesday, October 14, 2015

احمدیت کے مقابلہ پر علماء کی ناکامی کا اعتراف

احمدیت کے مقابلہ میں علماء کی ناکامی کا اعتراف
قومی اسمبلی  کے رکن سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی نے احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی میں اٹھائے گئے نکات کا جواب نہ دینے پر علماء پر تنقید  کی ۔
’’لیکن جو مواد انہوں نے (یعنی احمدیہ مسلم جماعت نے) اس ہاؤس کے سامنے رکھا، ہمارے علماء کرام پر بہت بڑا دھبہ ہے، ایک اتنا بڑا چارج ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں اس چارج سے اس دھبہ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنے عوام کے سامنے آنا چاہئے۔ آپ کے یعنی مفتی صاحب کے جوابات میں نے پڑھے۔ طویل ڈکشنری جس میں انہوں نے اپنے تمام علم کا ذخیرہ اکٹھا کردیا تھا، سب میں نے دیکھا، میں نے پڑھا۔ لیکن کہیں ایک جھلک ان چارجز کی، ان کے حقائق کی جو انہوں نے یہاں پیش کئے، خدا جانے وہ سچے ہیں یا جھوٹے ہیں، اگر وہ جھوٹے بھی ہوں تو عقلی طور پر میں تسلیم کرتا ہوں۔ اب آپ نے اس کی تردید نہیں کی تو میرے پاس کیا جواب ہے۔ میں یہ کہوں کہ ان کے جو دلائل ہیں غلط ہیں جو کہ آپ کے اندرونی فرقوں کے متعلق ہیں۔ ۔۔‘‘ (قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)
لیکن انہوں نے ابھی اپنی بات شروع کی ہی تھی کہ چند اراکین اسمبلی نے شور مچا کر اور پوائنٹ آف آرڈر اٹھا کر انہیں یہ سب کہنے سے منع کردیا اور چیئرمین نے بھی ان اراکین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی کو علماء پر تنقید کرنے سے منع کردیا۔ایک اور رکن اسمبلی، چوہدری جہانگیر علی، نے  سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے چیئرمین سے درخواست کہ انہیں بولنے دیا جائے لیکن سپیکر نے رولنگ دے کر سردار عباسی کو خاموش کرادیا۔ اس پراس زبردستی روکے جانے پر سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی نے کہا:
’’چلو رولنگ ہے سپیکر صاحب کی ہے۔ میں صرف اس ضمن میں کہوں گا، تفصیل میں  جانا نہیں  چاہتا ہوں۔ ہم جو مسلمان ہیں۔ ہم دین سے واقف ہیں جو مناسب جواب ہے اس ہاؤس کے سامنے ہمارے علماء ایک پمفلٹ کی شکل میں لائیں اور ہماری رہنمائی کریں۔‘‘(قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)
ایک اور رکن اسمبلی، کرنل حبیب احمد، نے  عباسی صاحب کی تائید کرتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ان کا جواب علماء کی طرف سے نہ آنے پر وہ لوگ جو اس تمام کاروائی اور احمدیوں کی کتابیں پڑھیں گے وہ گمراہ ہوجائیں گے۔
’’کرنل حبیب احمد: پوائنٹ آف آرڈر۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو تقریریں ہوئی ہیں اور جو حضرات اپنا مؤقف بان کررہے ہیں وہ اب تمام کی تمام کتابوں کی شکل میں باہر آجائیں گی اور اس کا زبردست تمام دنیا میں پروپیگنڈہ ہوگا اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اس کو پڑھیں گی۔ یہ ایک مثبت ریکارڈ ہے اور تا قیامت رہے گا اور اس کو تاریخ اور دنیا کی کوئی چیز مٹا نہیں سکے گی۔ اور ہم بھی یہ توقع کرہے تھے کہ چوہدری صاحب اور ہمارے دوسرے کئی دوستوں نے یہاں پوائنٹ آؤٹ  کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے علماء کرام جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، مولانا صاحبان جو ہم سے بہت زیادہ اسلامی تعلیم رکھتے ہیں، ہم اس بات کو admit  کرنے کو تیار ہیں۔لیکن کسی نے یہاں کوئی پوائنٹ آف آرڈر نہیں کیا یا دوسری صورت میں پوائنٹ آؤٹ نہیں کیا۔ میں نے اپنی کم عقلی کے باوجود پوائنٹ آؤٹ کیا تھا کہ انہوں نے یہاں فرمایا تھا کہ اگر یہاں کوئی عالم بیٹھا ہے جو عربی جانتا ہے۔ وہ یہ سمجھے گا کہ عربی میں زیر، زبر، پیش سے کیا مطلب ہوتا ہے اور کیسے مفہوم تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہمارے یہ علماء کے لیے اتنا بڑا چیلنج تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے جواب میں۔۔۔
جناب چئیرمین: پوائنٹ آف آرڈر پیش کرلیا ہے تشریف رکھیں۔
کرنل حبیب احمد: عباسی صاحب جو تقریر فرمارہے ہیں وہ نہایت مدلل اور convincing ہے۔ اب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ریکارڈ پر بھی آئے گی۔ یہ تاریخ ہے اور ایک اسلامی تاریخ ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے جو جواب یہاں دئیے ان دلائل کو زیر بحث نہ لایا گیا۔ ان کے مؤقف کو جو نہایت خطرناک تھا، ان کے جوابات کتاب کی شکل میں کیوں نہیں آئے۔ چونکہ میرا بیٹا اور اس کا بیٹا، ہماری نسلوں کی نسلیں بھی ان کو پڑھیں گی، ہمارے علماء کے بیانات پڑھیں گے، تو وہ اپنے ذہن میں کیا تصور پیش کریں گے۔ مثلًا میں یہ کہتا ہوں کہ جو عباسی صاحب  نے فرمایا وہ درست فرمایا ہے۔ ہمارے کئی دوست اس طرف بیٹھے ہیں اس وقت یہ پوائنٹ آؤٹ کیا لیکن کوئی بات نہیں بنی۔ اور ہمارے ایڈووکیٹ جنرل صاحب نے ایک ایسی معیاری ایڈووکیسی کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ میرے نزدیک وہ بھی مجھ سے زیادہ عالم ہوں گے۔لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے علماء میں اس قسم کا کوئی مذاکرہ ہوتا تاکہ ہم کو بھی پتہ ہوتا۔میں سنی ہوں لیکن خدا گواہ ہے اگر ہم سنی ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم سنی ہیں۔ یہ میری اپنی بات ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)
’’ملک محمد جعفر: میری آخری تجویز تبلیغ کے متعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں جناب! کہ یہ بہت بڑی کوتاہی ہے ہمارے علماء کی۔ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور اس کمزوری کو ماننا چاہئے۔یعنی جس کو ہم کہتے ہیں ختم نبوت، یہ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے عقیدۂ اسلام میں۔ تو یہ کیونکر ہوا۔ ایک اسلامی معاشرہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور دعوے میں اتنا تضاد، اور اپنے باقی کاروبار بھی، عورتوں کے متعلق بھی، سب چیزوں میں اتنی خرابیاں۔ اور الہام جو ہیں بالکل بے معنی اور بے ربط ہیں۔ ان ساری چیزوں کے باوجود اسلامی معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ، عالم، سیّدوں کے خاندان کے، مولوی نورالدین جیسے لوگ اور مولوی محمد علی، یہ لوگ کیوں اس جماعت میں شامل ہوگئے۔ اگر ہمارے علماء جن کے متعلق قرآن کریم میں حکم ہے مسلمانوں کو کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے۔۔یہ علماء کے متعلق ہے۔۔ جو لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائے پھر علماء کے متعلق حدیث یہاں بیان ہوئی ہے۔ (عربی) میری امت کے علماء جو ہیں بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ان کا مقام ہے۔اتنا بڑا مقام۔ ایک غلط مدعی نبوت اسلامی معاشرہ میں پیدا ہوا اور اس کی جماعت ترقی کرتی جائے اور اس حد تک ترقی کرجائے۔ یہ تبلیغ  کا فریضہ ہمارے علماء اور باقی لوگوں کو بھی ادا کرنا چاہئے۔لیکن ہم نے ادا نہیں کیا۔ ہم نے جب دیکھا کہ وہ بہت بڑے منظم ہوگئے ہیں، طاقتور ہوگئے ہیں، خاصی جمیعت ہوگئی ہے تو یہ شروع ہوگئی تحریک۔لیکن ساتھ تبلیغ ہونی چاہئے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے میں سے گمراہ ہوگئے۔ یہ خود بھی نہیں ہوئے بیچارے۔بیشتر ایسے ہیں، میرے خیال میں ایک فیصد بھی نہ رہے ہیں، جو اس وقت شامل ہوئے تھے۔ اب ان کے بیٹے پوتے وغیرہ ہیں۔ ان کو تو پتہ بھی نہیں ہے۔ ہم اگر تبلیغ کا کام کریں صحیح طریقے پر تو کوئی وجہ نہیں، کیونکہ ہمارے پاس حق ہے اور اس طرف باطل ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ حق باطل پر غالب نہ آجائے۔‘‘(قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ جمعرات ۵ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۹)
احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف فیصلہ پر سزا کا اقرار
’’شہزادہ سعید الرشید عباسی: جناب والا میں اس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جسے پاکستان بننے سے پہلے اور ون یونٹ کے وقت ریاست بہاولپور کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ریاست بہاولپور پنجاب کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی۔ یہاں اسلام کا بول بالا تھا اور اسلامی قانون نافذ تھے۔چنانچہ اس سرزمین پر نواب الحاج صادق محمد خان عباسی کے دور میں ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا۔ یہ ایک مقدمہ تھا جو۱۹۲۶؁ء میں دائر ہوا اور جو بعد میں فیصلہ بہاولپور کے نام سے مشہور ہوا۔۔۔یہ فیصلہ بہاولپور کے مسلمانوں نے قادیانیوں کے خلاف کیا اور اس کی سزا آج تک ہمیں مل رہی ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)

No comments:

Post a Comment