Wednesday, October 14, 2015

دیوبندی سیاست کے اصول

دیوبندی سیاست کے اصول

’’اسلام اور سیاست‘‘ دیوبندی فرقہ کے ایک اہم عالمِ دین مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے مجموعۂِ افادات اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے رسالہ ’’حکیم الامت کے سیاسی افکار‘‘پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ تھانوی مکتبۂ فکر دیوبندی فرقہ میں، مولانا حسین احمد مدنی صاحب، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب اور دیگر کانگرس نواز علماءِ دیوبند کے برعکس، حکومت و سیاست کے حوالہ سے اپنی ایک الگ اور ممتاز رائے رکھتا ہےاور حکومتِ وقت کی، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم،مکمل اطاعت و تابعداری کا اس حد تک قائل ہے کہ بغیر ٹکٹ سفر کرنا، کم درجہ کی ٹکٹ لے کر اعلیٰ درجہ میں بیٹھنا، کم محصول دے کر زیادہ سامان لیجانا اور ڈاک کی ایسی ٹکٹوں کو جن پر مہر نہ لگی ہو دوبارہ استعمال کرنا حکومت کی چوری، بدعہدی اور خیانت میں شمار کرتا ہے،پُرامن ماحول مہیا کرنے پر حکومتِ وقت کا شکرگزار ہونے کی تلقین کرتا ہے، ملک میں امن و امان قائم رکھنا چاہتا ہے اور حکومتِ وقت کے خلاف کسی قسم کی شورش اور فتنہ و فساد کو سختی سے ناپسند کرتا اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ناجائز قرار دیتا ہے۔اشرف علی تھانوی صاحب نے نہ تو خود کسی انگریز مخالف تحریک میں حصہ لیا اور نہ ہی اپنے کسی مرید کو ایسا کرنے کا حکم دیا بلکہ اس دور کی سیاسی جماعتوں خصوصًا کانگریس کی گھیراؤ جلاؤ ، ترک موالات اورسول نافرمانی کی تحریکوں کو ناپسند قرار دیتے ہوئے اپنے مریدوں کو ان سے الگ رہنے کی تلقین کی، علماء کاعملی سیاست میں حصہ لینا شرعی طور پر ناپسندیدہ قرار دیااور  بنی اسرائیل کی ایک مثال کے ذریعہ، جس میں انہوں نے وقت کے نبی کو اپنے لئے ایک بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی، یہ بتایا کہ نبی کے لئے سیاست میں حصہ لینا ضروری نہیں ہے۔ مسلمانوں کا عظمتِ رفتہ کے نام پر اپنی حکومت دوبارہ قائم کرنے کی کوششوں کو بھی انہوں نے اصلاح المسلمین سے مشروط کیا اور کہا کہ دس سال تک ہر قسم کی تحریک کو بند کردیا جائے اور ایک واجب الاطاعت امیر مقرر کرکے سارا زور مسلمانوں کی اصلاح پر صرف کیا جائے۔اس کے بعد اگر مسلمان اس قابل ہوئے کہ وہ ایک ریاست قائم کرسکیں تب کسی حکومت سازی کی طرف قدم بڑھایا جاسکے گا۔

 اسلام کو سیاسی نہیں بلکہ سیاست کو اسلامی بناؤ

’’اسلام کی تعلیمات چونکہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں جن میں سیاست بھی داخل ہے، اس لئے اسلام میں سیاست کو دین و مذہب سے بے تعلق رکھنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔چنانچہ عہد حاضر میں بہت سے مسلمانوں نے عیسائیت اور سیکولر ازم کے اس باطل نظرئیے کی پرزور تردید کی، اور یہ ثابت کیا کہ سیاست کو دین سے الگ نہیں کیا جاسکتا، بقول اقبال مرحوم ؔ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ لیکن سیکولرازم اور دین و سیاست کی تفریق کے اس نظریے کی پرزور تردید کرتے ہوئے بہت سے مسلمان مفکرین اور اہل قلم سے ایک نہایت باریک غلطی واقع ہوگئی جو دیکھنے میں بڑی باریک اور معمولی تھی لیکن اس کے اثرات بہت دوررس تھے۔ اس باریک غلطی کو ہم مختصر لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو اسے اس طرح تعبیر کرسکتے ہیں کہ انہوں نے ’’سیکولرازم ‘‘ کی تردید کے جوش میں سیاست کو اسلامی بنانے کی بجائے اسلام کو سیاسی بنادیا، کہنا یوں تھا کہ ’’سیاست‘‘ کو دین سے الگ نہ ہونا چاہئے لیکن کہا یوں کہ دین کو سیاست سے الگ نہیں ہونا چاہئے۔‘‘(صفحہ17)
’’یہ بات مشہور ہے کہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ ہندوستان کی سیاسی تحریکات سے الگ رہے، اس دوران ایک صاحب نے یہ پیش کش کی کہ ہم آپ کو امیرالمومنین بناتے ہیں۔آپ ہماری قیادت فرمائیے حضرت نے اس پیش کش کا مناسب جواب دینے کے بعد فرمایا۔ ’’سب سے پہلے جو امیرالمومنین ہوکر حکم دوں گا وہ یہ ہوگا کہ دس برس تک سب تحریک اور شوروغل بند۔ان دس سالوں میں مسلمانوں کی اصلاح کوشش کی جائے گی۔ جب یہ قابل اطمینان ہوجائیں گے تب مناسب حکم دوں گا۔‘‘(الافاضات الیومیہ ص۔76ج2ملفوظات89 لقب بہ تدبیر الفلاح) اگر ہم حقیقت پسندی سے اپنے حالات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے اس اقتباس میں ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے، اگر آج ہماری سیاست کی بیل منڈھے نہیں چڑھتی تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم مکی زندگی کے تیرہ سال کی چھلانگ لگا کر پہلے ہی دن سے مدنی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ہم اپنے آپ کو اخلاقی اور روحانی اعتبار سے تیار کئے بغیر اصلاح قوم کا جھنڈا لے کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ جھنڈا کس طرح پکڑا جاتا ہے؟ نہ ہمیں یہ پتہ ہے کہ اسے سربلند رکھنے کا طریقہ کیا ہے؟ نہ ہم نے اس کام کی کوئی تربیت حاصل کی ہے، بس ہم نے کچھ دوسری قوموں کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے جھنڈا اٹھائے دیکھا تو انہی کی نقالی ہم نے بھی شروع کردی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جدوجہد کا طرزوانداز، ہماری کوششوں کا طریق کار، ہماری اختیار کی ہوئی تدبیریں، تقریبًا سب کی سب وہ ہیں جو ہم نے دوسری قوموں سے مستعار لی ہیں، اور ان کو شریعت کی کسوٹی پر صحیح طریقے سے پرکھے بغیر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جب ان طریقوں سے لادینی سیاست کامیاب ہوسکتی ہے تو اسلامی سیاست بھی کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔ حالانکہ اسلامی سیاست کو لادینی سیاست پر قیاس کرنا کھجور کے درخت کو کنویں پر قیاس کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ (صفحہ 46,47)

ارباب حل و عقد کا اجتماع و اتفاق تمام مومنین کا اجتماع و اتفاق

’’خلاصہ یہ کہ عام مومنین کا اجتماع ہروقت دشوار ہے تو اس ضرورت سے عام مومنین میں جو ذی اثر لوگ ہوں گے۔جیسے علماء و رؤساء، امرا، سلاطین، جن کو اہل حل و عقد کہا جاتا ہے وہ ان کے قائم مقام سمجھے جائیں گے اور ان ذی اثر لوگوں کا اجتماع (و اتفاق) عام مومنین کا اجتماع قرار دیا جائے گا۔(افاضات الیومیہ ص10/220)‘‘ (صفحہ 96)

مسلمانوں کی ناکامی کی وجہ:

’’اس وقت سب سے بڑی وجہ ناکامی کی یہی ہوئی کہ مسلمانوں کے سر پر کوئی بڑا نہیں، نہ مسلمانوں کی قوت کسی مرکز پر جمع ہے اور نہ ہوسکتی ہے جب تک کہ بالاتفاق ایک کو بڑا نہ بنا لیں۔ اگر امام ہو تو سب کام ٹھیک ہوسکتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۔54)

’’۱:۔اصل چیز یہ ہے کہ مسلمانوں میں دین پیدا ہو۔۲:۔ ان کی قوت ایک مرکز پر جمع ہو ۳:۔ ان کا کوئی امیر ہو۔ میں بقسم عرض کرتا ہوں اور خدا کی ذات پر بھروسہ کرکے کہتا ہوں کہ اگر مسلمان مضبوطی کے ساتھ اپنے دین کے پابند ہوجائیں۔اور تمام آپس کے جھگڑوں کو ختم کرکے متحد ہوجائیں۔اور اپنی قوت کو ایک مرکز پر جمع کرلیں۔اور جس کو اپنا خیرخواہ سمجھ کر بڑا بنائیں اس کے کہنے اور مشوروں پر عمل کریں۔ اس کی اتباع سے اعراض نہ کریں تو پھر نہ اس کو کسی کی شرکت کی ضرورت نہ کسی سے خوف نہ ان کا کوئی کچھ بگاڑ سکتا ہے۔(الافاضات الیومیہ ص1/124)‘‘( صفحہ 125)

حکام سے مقابلہ عقلمندی نہیں

’’حکام سے مقابلہ کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ حکام سے تو مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ میں مسلمانوں سے کہا کرتا ہوں کہ اپنے وقت کے حاکموں کو ناراض نہ کرو یہ طریقہ بہت نقصان پہنچاسکتا ہے۔۔۔ایسا کوئی کام نہ کرنا چاہئے جس میں حاکم کی ناراضگی ہو۔ کیونکہ اس کا انجام قریب بہ ہلاکت ہے اور لمبی مدت تک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور ایسے خطرات سے نفس کی حفاظت کرنا شرعًا مطلوب ہے۔(بیان القرآن ص1/10)‘‘

’’حکومت شکر کی مستحق ہے اس کے خلاف شورش نہیں کرنی چاہئے‘‘

’’جس وقت حضور ﷺ مکہ معظمہ سے طائف تشریف لے گئے کہ شاید وہاں کے باشندے مسلمان ہوجائیں اور وہاں تکلیف سے نجات ملے وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ نہایت گستاخانہ سلوک کیا تو آپ بددل ہوکر پھر مکہ معظمہ واپس تشریف لائے اور مطعم بن عدی کو اطلاع فرمائی کہ اگر مکہ والے مجھے امن دیں تو میں شہر میں رہوں ورنہ کسی دوسری جگہ چلا جاؤں۔ اس وقت مطعم بن عدی نے مکہ والوں سے کہا کہ میں نے محمد ﷺ کو پناہ دی۔ خبردار کوئی ان کو ہاتھ نہ لگائے۔ چنانچہ اس وقت ہجرت مدینہ تک حضرت ﷺ مطعم بن عدی کی پناہ کی وجہ سے مکہ میں تشریف فرمارہے۔ ان کی اس ہمدردی کا حضور ﷺ ہمیشہ شکریہ ظاہر فرماتے تھے۔ اسی کے صلہ میں اس وقت جب کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو غلبہ ہوا اور بہت سے کفار مارے گئے اور بہت سے قید ہوکر آئے تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان کفار کے متعلق گفتگو کرتے تو میں ان کی خاطر چھوڑ دیتا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضور ﷺ ان کی شکرگزاری کے لئے ایسا فرماتے تھے۔ اس وقت بعینہہ یہی حالت ہے ان احکام کے ساتھ کو جس طرح مطعم بن عدی نے حضور ﷺ کی حمایت کی تھی اور آپ ان کے ممنون اور شکرگزار تھے اسی طرح حکام وقت ہمارے محافظ ہیں اور ہمارے امن کے ذمہ دار ہیں ہم کو بھی ان کا شکرگزار ہونا چاہئے جس کا ادنیٰ اثر یہ ہونا چاہئے کہ کوئی ایسی شورش نہ کریں جس سے حکام تشویش میں پڑ جائیں۔‘‘ (ص196,197)

عہد و پیمان کے خلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں

’’ جب مسلمان رعایا بن کر ہندوستان میں رہے اور حکام سے (اس بات کا) عہد و پیمان کرچکے کہ کسی حاکم یا رعایا کے جان و مال میں دست اندازی نہ کریں گے اور کوئی امر خلاف اطاعت نہ کریں گے تو مسلمانوں کو عہد و پیمان کے خلاف کرنا یا حکام کی کسی قسم کی مخالفت یا خیانت کرنا ہرگز درست نہیں اور نہ ہی رعایا کے ساتھ عہد کے خلاف اور خیانت کرنا (یعنی ہندو وغیرہ کے ساتھ) درست ہے۔۔۔پس مسلمانوں کو اپنے عہد کے موافق حکام کی تابعداری جس میں کچھ معصیت نہ ہو ضروری ہے اور کسی قسم کی بغاوت اور مخالفت اور مقابلہ اور خیانت جائز نہیں‘‘ (ص۔199,200)

غیر ملکی مسلمان حملہ آور قوموں کی مدد کرنا سخت گناہ ہے

’’اگر کوئی مسلمان یا غیر مسلمان ہمارے حکام کے مقبوضہ ممالک سے خارج ہیں (یعنی غیر ملکی) ان ہمارے حکام کے ساتھ مقابلہ اور لڑائی کرنے اور ان پر حملہ کرکے آئیں تو ہم کو اس قوم کے ساتھ ہونا اور ان کو مدد دینا بھی ہرگز درست نہیں کیونکہ یہ بھی عہد کے خلاف ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ و ان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر الا علی قوم بینکم و بینھم میثاق ’’یعنی اگر اہل اسلام مدد چاہیں تم سے دین کے مقابلہ میں۔پس تمہارے اوپر مدد کرنا ضروری ہے مگر اس قوم کے معاملہ میں تمہارے اور ان کے درمیان عہد ہوچکا ہے‘‘مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کا ان لوگوں سے مقابلہ ہو جن سے تم عہد و پیمان کرچکے ہو تو مسلمانوں کا ساتھ مت دو پس مسلمانوں کو ہر حال میں اپنے عہد کی رعایت کرنی چاہئے نہ خود مخالفت کریں نہ کسی مخالف کی اعانت کریں اگر اس کے خلاف کریں گے تو سخت گنہگار اور مستحق عذاب ہوں گے۔‘‘ (ص200,201)

غیر مسلم حکومت میں رعایا بن کر رہنے کا حکم

’’حضرت مولانا گنگوہی قدس سرہ نے اپنے ایک فتویٰ میں فرمایا ہے جو ذیل میں منقول ہے۔سوال:۔ یہ ملک ہندوستان جو سو برس سے زائد مسیحی حکام کے مملوکہ و مقبوضہ ہے اور ان کی رعایا میں ہنود وغیرہ مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں اور ہم لوگ مسلمان بھی زیر حکومت آباد ہیں۔ تو مسلمانوں کو اس ملک میں حکام کی رعایا بن کر رہنا چاہئے یا نہیں۔ اور ہم مسلمانوں کو اپنے ان حکام کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے۔ اور نیز ہندوؤں وغیرہ رعایا کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے۔الجواب:۔ چونکہ قدیم سے مذہب، اور جملہ مسیحی لوگوں کا قانون یہ ہے کہ کسی کی ملت اور مذہب سے پرکاش اور مخالفت نہیں کرتے اور نہ کسی مذہبی آزادی میں دست اندازی کرتے ہیں۔ اور اپنی رعایا کو ہر طرح سے امن و حفاظت میں رکھتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو یہاں ہندوستان میں جو کہ اہل مسیحی کا مملوکہ و مقبوضہ ہے رہنا اور ان کی رعیت بننا درست ہے۔چنانچہ جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ملک حبشہ میں جو نصاریٰ کا مقبوضہ تھا بھیج دیا۔ اور یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ وہ کسی کے مذہب میں دست اندازی نہیں کرتے تھے۔‘‘ (ص۔201)

اسلام میں جماعت اور امام کی ضرورت و اہمیت

اسلام میں جماعت اور امام کی ضرورت و اہمیت
قرآن مجید کے مطابق اسلام اکمل ترین دین ہے
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔ (المائدۃ۔5:4)    آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا
قرآنِ کریم بہترین کتاب ہے
ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہَ۔۔۔(البقرۃ۔2:3)   یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں
مسلمان بہترین امّت ہیں
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔۔۔(آل عمران۔3:111)   تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے
مومنین سے فتح کا وعدہ کیا گیا ہے
وَ لَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ۔ (آل عمران۔3:140)   اور کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو۔جبکہ (یقینًا) تم ہی غالب آنے والے ہو اگر تم مومن ہو
تو پھر سوال یہ ہے کہ ان تمام بہترین خوبیوں کے باوجود امّتِ مسلمہ زوال کا شکار کیوں ہے
زوال کی وجوہات
اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل آیات اور احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ دیگر قوموں کی طرح ان وجوہات کے ظاہر ہونے پر، یعنی اللہ کی کتاب کو چھوڑنے، علماء و مشائخ کی اندھی پیروی کرنے اور فرقوں میں تقسیم ہونے کے باعث مسلمان بھی زوال اور غیر قوموں کے غلبہ کا شکار ہوجائیں گے
قرآنِ کریم کا ترک کرنا
وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ الْمَھْجُوْرًا (الفرقان۔25:31)
اور رسول کہے گا اے میرے ربّ! یقینًا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔
یاتی علی الناس زمان لا یبقیٰ من الاسلام الا اسمُہٗ ولا یبقیٰ من القرآن الا رسمُہٗ۔بیہقی شُعَبِ الایمان (مشکوٰۃ کتاب العلم۔الفصل الثالث)
لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے۔
علماء کی اندھی پیروی کرنا
اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔۔۔ (التوبۃ۔9:31)
انہوں نے اپنے علمائے دین اور راہبوں کو اللہ سے الگ ربّ بنا رکھا ہے
حضرت عدی ؓ بن حاتم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے قرار دئیے گئے حلال کو حلال اور انکے  قرار دئیے گئے حرام کو حرام سمجھتے تھے۔(ترمذی کتاب التفسیرباب تفسیر سورۃ التوبۃ)
فرقہ واریت
یقینًا بنی اسرائیل72 فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے جبکہ میری امّت73 فرقوں میں تقسیم ہوں گے۔ یہ تمام آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے۔ صحابہؓ کرام نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ الجماعۃ ہے۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن؛  ابوداؤد کتاب السنّۃ)
کیا اب ایسا نہیں ہورہا؟
’’حضرت ثوبانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عنقریب قومیں ایک دوسرے کو تم پر دعوت دیں گی جیسے کھانے پر ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں۔ صحابہؓ کرام نے پوچھا کہ کیا ہم اس وقت قلیل ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں تم کثیر تعداد میں ہوں گے لیکن سیلاب میں بہنے والے کوڑے کرکٹ کی طرح ہوگے، دشمن کے دل سے تمہارا رعب جاتا رہے گا اور تمہارے دلوں میں وہن داخل ہوجائے گا۔ صحابہؓ کرام نے پوچھا کہ وہن کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔‘‘ (ابوداؤد کتاب الملاحم)
آج کل کے حالات کے مشاہدہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زوال کی مندرجہ بالا وجوہات امت مسلمہ میں ظاہر ہوچکی ہیں اور اس کا نتیجہ بھی ظاہر ہوچکا ہے جس کے متعلق مندرجہ بالا حدیث میں خبر دی گئی ہے۔ یعنی مسلمانوں میں دنیا کی محبت اور موت کے خوف کا ظاہرہوچکی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ غیر قوموں نے سیاسی، اقتصادی، اور فوجی اتحاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے اور عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرکے ایک دوسرے کو اسے ہڑپ کرنے کی دعوت دے رہی ہیں ۔
ان مسائل کا اسلامی حل
وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ۔۔۔( البقرۃ2:44.) اور جھکنے والوں کے ساتھ جھک جاؤ۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا  تَفَرَّقُوْا۔۔۔( آل عمران3:104.)
اور اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ نہ کرو
کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔۔۔ ( التوبۃ9:119.)   سچوں کے ساتھ ہوجاؤ
کتاب اور معلم لازم و ملزوم
ان آیات سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ کتاب کے ساتھ ایک معلم ضروری ہے جو اس کتاب میں دی گئی تعلیم کا عملی مظاہرہ کرکے ہمیں سکھاتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل کیسے کرنا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ خود معلم اس تعلیم کے خلاف نہ تو کوئی بات کرسکتا ہے اورنہ ہی کوئی مخالف عمل۔ اسی لئے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے جب نبی اکرم ﷺ کے اخلاق فاضلہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا ’’کان خلقہٗ القرآن‘‘ یعنی ان کے سارے اخلاق قرآن کے مطابق ہی تھے۔ اس لئے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ نبی اکرم ﷺ قرآن کے مخالف کوئی بات یا عمل کریں اور نتیجۃً کسی صحیح حدیث اور قرآن میں کوئی تضاد پیدا ہو۔ ایسا ثابت کرنا تو دور کی بات گمان کرنا بھی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان تفریق پیدا کرنے کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
[4:151] إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُونَ بِاللّہِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیْدُونَ أَن یُفَرِّقُواْ بَیْنَ اللّہِ وَرُسُلِہِ وَیْقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُونَ أَن یَتَّخِذُواْ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیْلا
کتاب اور معلم کا باہمی مضبوط تعلق اور امت مسلمہ کے لئے دونوں کا لازم و ملزوم ہونا مندرجہ ذیل آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ محض کتاب نہیں بلکہ وہ رسول ، جس پر وہ کتاب یا تونازل کی جاتی ہے یا بطور وراثت عطا کی جاتی ہے،  لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۔وہ اس کتاب کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے لئے نمونہ بنتا ہے اور پھر اس نمونہ کی پیروی کرتے ہوئے لوگ اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آتے ہیں۔
[14:2] الَر کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ
صداقتِ رسول کے گواہ۔ اللہ تعالیٰ اور کتاب کا علم رکھنے والا
اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے علاوہ کتاب کا علم رکھنے والے کو سچے رسول کی صداقت کا گواہ قرار دیا ہے:
[13:44] وَیَقُولُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ کَفَی بِاللّہِ شَہِیْداً بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِندَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ
عن حذیفہ بن الیمان ؓ۔۔۔قَالَ ﴿رَسُوْلُ اَللّٰہِ ﴾: تَلْزَمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِمَامَھُمْ، قُلْتُ: فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُمْ جَمَاعَةٌ وَ لَا اِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا وَلَوْ اَنْ تَعَضَّ بِاَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّی یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَ اَنْتَ عَلیٰ ذٰلِکَ ﴿صحیح البخاری، کتاب الفتن، صحیح مسلم کتاب الامارة، و سنن ابن ماجة کتاب الفتن،و سنن ترمذی ابواب الفتن﴾
حضرت حذیفہ بن یمانؓ فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا۔ میں نے کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہوا تو پھر؟ آپ نے فرمایا کہ تمام فرقوں سے الگ رہنا اور کسی جنگل میں درخت کی کھوہ میں بیٹھ رہنا اور اس کی جڑوں کو چبانا یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے۔‘‘ (بخاری کتاب الفتن باب کیف الامر اذ لم تکن جماعۃ)
رسول الله يقول : إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يقاتل من ورائه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن قال بغيره فإن عليه منه
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام ڈھال ہوتا ہے۔اس کے پیچھے ہو کر لڑو۔‘‘ ﴿بخاری کتاب الجہاد باب یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِ الْاِمَامِ وَ یُتَّقِیْ بِہِ﴾
’’عَنْ مُعَاوِیَۃ قال: قال رسولُ اللّٰہ مَنْ مَاتَ بِغَیْرِ اِمَامٍ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو امام کے بغیر مرے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد۔مسند الشامیین حدیث معاویہ بن ابی سفیان)
 "وَ اَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْس   ٍ اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ: السَّمْعَ وَ الطَّاعَةَ وَالْجِھَادِ وَ الْھِجْرَةِ وَ الْجَمَاعَةِ، فَاِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ اِلَّا اَنْ یَرْجِعَ۔"﴿سنن الترمذی، ابواب الامثال )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم کو پانچ باتوں کی نصیحت کرتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ اور وہ ہیں سمع، طاعت، جہاد، ہجرت اور جماعت۔اور جس نے جماعت سے ایک قدم بھی باہر نکالا اس نے اسلام کا جؤا  اپنی گردن سے اتاردیا یہاں تک کہ وہ واپس آجائے۔
مرض کی نشاندہی کے بعدمندرجہ بالا آیات اور احادیث میں مسلمانوں کو زوال سے نکلنے اور اسلام کو دوبارہ ایک غالب دین بنانے کا علاج بھی تجویز کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ فرقہ واریت کو ترک کرکے متحد ہوکر ایک امام اورایک جماعت کے ساتھ چمٹ جائیں۔ اس کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آج کے دور میں وہ کون سی جماعت اور وہ کون سا امام ہے جس کے ساتھ ہم چمٹ سکیں۔ گہرے اور بغور مطالعہ و مشاہدہ کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس وقت احمدیہ مسلم جماعت ہی وہ واحد جماعت ہے جو جماعت کی تعریف پر پوری اترتی ہے اور سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی وہ واحد امام ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر فائز کئے جانے کا دعویٰ فرمایا ہے۔
امام الزمان  حضرت مرزا غلام احمد قادیانی
الامام المہدی و المسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
’’اے مسلمانو! اگر تم سچے دل سے حضرت خداوند تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہو اور نصرتِ الٰہی کے منتظر ہو تو یقینًا سمجھو کہ نصرت کا وقت آگیااور یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بنا ڈالی۔بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہوگئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا۔قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اس کے باشفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھالیا سو شکر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری زندگی کا دن آگیا۔ خداتعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع نہیں کرنا چاہتا وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو۔وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے۔کیا اندھیری رات کے بعد نئے چاند چڑھنے کی انتظار نہیں ہوتی۔ کیا تم سلخ کی رات کو جوظلمت کی آخری رات ہے دیکھ کر حکم نہیں کرتے کہ کل نیا چاند نکلنے والا ہے۔ افسوس کہ تم اس دنیا کے ظاہری قانونِ قدرت کو تو خوب سمجھتے ہو مگر اس روحانی قانونِ فطرت سے جو اسی کا ہم شکل ہے بکلّی بے خبر ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ ۴۔۵، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۰۴، ۱۰۵)
خلافت احمدیہ
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًاط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ٭ (النور ۔24:56 )
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَآ ئَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اَنْ یَرْفَعَھَا ۔ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ فَتََکُوْنُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ یَرْفَعَھَا ۔ ثُمَّ تَکُوْنَ مُلْکًا عَاضًا فَیَکُوْنُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ یَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اَنْ یَرْ فَعَھَا ۔ ثُمَّ یَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً فَتَکُوْنُ مَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَآئَ اَنْ یَرْفَعَھَا ۔ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ۔ ثم سکت ‘‘ (مسند احمد بن حنبل مسند الکوفیین حدیث نعمان بن بشیرؓ و مشکوٰۃ المصابیح باب الانذار و التحذیر)
حضرت حذیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں نبوّت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ پھر خدا تعالیٰ نبوّت کو اٹھالے گا اور پھر اس کے بعد نبوّت کے طریق (منہاج) پر خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ پھر خدا تعالیٰ خلافت کو اٹھالے گا۔ پھر ایک کاٹنے (قتل و غارت ) والی بادشاہت آئے گی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ پھر ایک جوروجبر والی بادشاہت ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوّت قائم ہوگی۔ پھر رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔
حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیؑح الخامس، ایّدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روحانی قیادت میں احمدیہ مسلم جماعت چہار دانگ عالم میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔

احمدیت کے مقابلہ پر علماء کی ناکامی کا اعتراف

احمدیت کے مقابلہ میں علماء کی ناکامی کا اعتراف
قومی اسمبلی  کے رکن سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی نے احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے قومی اسمبلی میں اٹھائے گئے نکات کا جواب نہ دینے پر علماء پر تنقید  کی ۔
’’لیکن جو مواد انہوں نے (یعنی احمدیہ مسلم جماعت نے) اس ہاؤس کے سامنے رکھا، ہمارے علماء کرام پر بہت بڑا دھبہ ہے، ایک اتنا بڑا چارج ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں اس چارج سے اس دھبہ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنے عوام کے سامنے آنا چاہئے۔ آپ کے یعنی مفتی صاحب کے جوابات میں نے پڑھے۔ طویل ڈکشنری جس میں انہوں نے اپنے تمام علم کا ذخیرہ اکٹھا کردیا تھا، سب میں نے دیکھا، میں نے پڑھا۔ لیکن کہیں ایک جھلک ان چارجز کی، ان کے حقائق کی جو انہوں نے یہاں پیش کئے، خدا جانے وہ سچے ہیں یا جھوٹے ہیں، اگر وہ جھوٹے بھی ہوں تو عقلی طور پر میں تسلیم کرتا ہوں۔ اب آپ نے اس کی تردید نہیں کی تو میرے پاس کیا جواب ہے۔ میں یہ کہوں کہ ان کے جو دلائل ہیں غلط ہیں جو کہ آپ کے اندرونی فرقوں کے متعلق ہیں۔ ۔۔‘‘ (قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)
لیکن انہوں نے ابھی اپنی بات شروع کی ہی تھی کہ چند اراکین اسمبلی نے شور مچا کر اور پوائنٹ آف آرڈر اٹھا کر انہیں یہ سب کہنے سے منع کردیا اور چیئرمین نے بھی ان اراکین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی کو علماء پر تنقید کرنے سے منع کردیا۔ایک اور رکن اسمبلی، چوہدری جہانگیر علی، نے  سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے چیئرمین سے درخواست کہ انہیں بولنے دیا جائے لیکن سپیکر نے رولنگ دے کر سردار عباسی کو خاموش کرادیا۔ اس پراس زبردستی روکے جانے پر سردار عنایت الرحمٰن خان عباسی نے کہا:
’’چلو رولنگ ہے سپیکر صاحب کی ہے۔ میں صرف اس ضمن میں کہوں گا، تفصیل میں  جانا نہیں  چاہتا ہوں۔ ہم جو مسلمان ہیں۔ ہم دین سے واقف ہیں جو مناسب جواب ہے اس ہاؤس کے سامنے ہمارے علماء ایک پمفلٹ کی شکل میں لائیں اور ہماری رہنمائی کریں۔‘‘(قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)
ایک اور رکن اسمبلی، کرنل حبیب احمد، نے  عباسی صاحب کی تائید کرتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے جو دلائل پیش کئے گئے ہیں ان کا جواب علماء کی طرف سے نہ آنے پر وہ لوگ جو اس تمام کاروائی اور احمدیوں کی کتابیں پڑھیں گے وہ گمراہ ہوجائیں گے۔
’’کرنل حبیب احمد: پوائنٹ آف آرڈر۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت جو تقریریں ہوئی ہیں اور جو حضرات اپنا مؤقف بان کررہے ہیں وہ اب تمام کی تمام کتابوں کی شکل میں باہر آجائیں گی اور اس کا زبردست تمام دنیا میں پروپیگنڈہ ہوگا اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اس کو پڑھیں گی۔ یہ ایک مثبت ریکارڈ ہے اور تا قیامت رہے گا اور اس کو تاریخ اور دنیا کی کوئی چیز مٹا نہیں سکے گی۔ اور ہم بھی یہ توقع کرہے تھے کہ چوہدری صاحب اور ہمارے دوسرے کئی دوستوں نے یہاں پوائنٹ آؤٹ  کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہمارے علماء کرام جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، مولانا صاحبان جو ہم سے بہت زیادہ اسلامی تعلیم رکھتے ہیں، ہم اس بات کو admit  کرنے کو تیار ہیں۔لیکن کسی نے یہاں کوئی پوائنٹ آف آرڈر نہیں کیا یا دوسری صورت میں پوائنٹ آؤٹ نہیں کیا۔ میں نے اپنی کم عقلی کے باوجود پوائنٹ آؤٹ کیا تھا کہ انہوں نے یہاں فرمایا تھا کہ اگر یہاں کوئی عالم بیٹھا ہے جو عربی جانتا ہے۔ وہ یہ سمجھے گا کہ عربی میں زیر، زبر، پیش سے کیا مطلب ہوتا ہے اور کیسے مفہوم تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہمارے یہ علماء کے لیے اتنا بڑا چیلنج تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں اٹھا۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے جواب میں۔۔۔
جناب چئیرمین: پوائنٹ آف آرڈر پیش کرلیا ہے تشریف رکھیں۔
کرنل حبیب احمد: عباسی صاحب جو تقریر فرمارہے ہیں وہ نہایت مدلل اور convincing ہے۔ اب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ریکارڈ پر بھی آئے گی۔ یہ تاریخ ہے اور ایک اسلامی تاریخ ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے جو جواب یہاں دئیے ان دلائل کو زیر بحث نہ لایا گیا۔ ان کے مؤقف کو جو نہایت خطرناک تھا، ان کے جوابات کتاب کی شکل میں کیوں نہیں آئے۔ چونکہ میرا بیٹا اور اس کا بیٹا، ہماری نسلوں کی نسلیں بھی ان کو پڑھیں گی، ہمارے علماء کے بیانات پڑھیں گے، تو وہ اپنے ذہن میں کیا تصور پیش کریں گے۔ مثلًا میں یہ کہتا ہوں کہ جو عباسی صاحب  نے فرمایا وہ درست فرمایا ہے۔ ہمارے کئی دوست اس طرف بیٹھے ہیں اس وقت یہ پوائنٹ آؤٹ کیا لیکن کوئی بات نہیں بنی۔ اور ہمارے ایڈووکیٹ جنرل صاحب نے ایک ایسی معیاری ایڈووکیسی کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ میرے نزدیک وہ بھی مجھ سے زیادہ عالم ہوں گے۔لیکن میں یہ چاہتا تھا کہ ہمارے علماء میں اس قسم کا کوئی مذاکرہ ہوتا تاکہ ہم کو بھی پتہ ہوتا۔میں سنی ہوں لیکن خدا گواہ ہے اگر ہم سنی ہیں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم سنی ہیں۔ یہ میری اپنی بات ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)
’’ملک محمد جعفر: میری آخری تجویز تبلیغ کے متعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں جناب! کہ یہ بہت بڑی کوتاہی ہے ہمارے علماء کی۔ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور اس کمزوری کو ماننا چاہئے۔یعنی جس کو ہم کہتے ہیں ختم نبوت، یہ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے عقیدۂ اسلام میں۔ تو یہ کیونکر ہوا۔ ایک اسلامی معاشرہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور دعوے میں اتنا تضاد، اور اپنے باقی کاروبار بھی، عورتوں کے متعلق بھی، سب چیزوں میں اتنی خرابیاں۔ اور الہام جو ہیں بالکل بے معنی اور بے ربط ہیں۔ ان ساری چیزوں کے باوجود اسلامی معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ، عالم، سیّدوں کے خاندان کے، مولوی نورالدین جیسے لوگ اور مولوی محمد علی، یہ لوگ کیوں اس جماعت میں شامل ہوگئے۔ اگر ہمارے علماء جن کے متعلق قرآن کریم میں حکم ہے مسلمانوں کو کہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے۔۔یہ علماء کے متعلق ہے۔۔ جو لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائے پھر علماء کے متعلق حدیث یہاں بیان ہوئی ہے۔ (عربی) میری امت کے علماء جو ہیں بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ان کا مقام ہے۔اتنا بڑا مقام۔ ایک غلط مدعی نبوت اسلامی معاشرہ میں پیدا ہوا اور اس کی جماعت ترقی کرتی جائے اور اس حد تک ترقی کرجائے۔ یہ تبلیغ  کا فریضہ ہمارے علماء اور باقی لوگوں کو بھی ادا کرنا چاہئے۔لیکن ہم نے ادا نہیں کیا۔ ہم نے جب دیکھا کہ وہ بہت بڑے منظم ہوگئے ہیں، طاقتور ہوگئے ہیں، خاصی جمیعت ہوگئی ہے تو یہ شروع ہوگئی تحریک۔لیکن ساتھ تبلیغ ہونی چاہئے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے میں سے گمراہ ہوگئے۔ یہ خود بھی نہیں ہوئے بیچارے۔بیشتر ایسے ہیں، میرے خیال میں ایک فیصد بھی نہ رہے ہیں، جو اس وقت شامل ہوئے تھے۔ اب ان کے بیٹے پوتے وغیرہ ہیں۔ ان کو تو پتہ بھی نہیں ہے۔ ہم اگر تبلیغ کا کام کریں صحیح طریقے پر تو کوئی وجہ نہیں، کیونکہ ہمارے پاس حق ہے اور اس طرف باطل ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ حق باطل پر غالب نہ آجائے۔‘‘(قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ جمعرات ۵ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۹)
احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف فیصلہ پر سزا کا اقرار
’’شہزادہ سعید الرشید عباسی: جناب والا میں اس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جسے پاکستان بننے سے پہلے اور ون یونٹ کے وقت ریاست بہاولپور کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ریاست بہاولپور پنجاب کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھی۔ یہاں اسلام کا بول بالا تھا اور اسلامی قانون نافذ تھے۔چنانچہ اس سرزمین پر نواب الحاج صادق محمد خان عباسی کے دور میں ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا۔ یہ ایک مقدمہ تھا جو۱۹۲۶؁ء میں دائر ہوا اور جو بعد میں فیصلہ بہاولپور کے نام سے مشہور ہوا۔۔۔یہ فیصلہ بہاولپور کے مسلمانوں نے قادیانیوں کے خلاف کیا اور اس کی سزا آج تک ہمیں مل رہی ہے۔‘‘ (قومی اسمبلی پاکستان کی  قادیانی مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی کمیٹی کی سرکاری رپورٹ۔ پیر ۲ ستمبر ۱۹۷۴۔ نمبر ۱۸)

احادیث مسیح و مہدی علیہ السلام کا تجزیہ

مسیح و مہدی ؑ
کی احادیث
کا تجزیہ

از
انصر رضا مشنری
احمدیہ مسلم جماعت کینیڈا

غیر احمدی مسلمان علماء کے اعترافات
بانئ سلسلہ عالیہ احمدیہ، سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام، کے دعویٰ مہدویت و مسیحیت پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ احادیث میں بیان کردہ علاماتِ مہدی و مسیؑح پر پورے نہیں اترتے۔جہاں تک احادیث کا تعلق ہے جماعت احمدیہ اُن پر ایمان رکھتی ہے لیکن اُن کی صحت و درستگی کو قرآنِ کریم کی کسوٹی پر پرکھتی ہے۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن و سنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اس پر وہ عمل کریں۔اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔‘‘ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ص۔6)
لیکن جہاں تک نزولِ مسیؑح و آمدِ امام مہدی ؑ کے متعلق احادیث کا تعلق ہے ان کا ایک بڑا حصہ قرآنِ مجید سے یکسر مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں ایک دوسرے سے اس قدر متضاد ہے کہ ان کی بنیاد پر کوئی مستحکم عقیدہ قائم ہی نہیں کیا جاسکتا۔ بقول شاعر:
’’کس کا یقیں کیجئے کس کا نہ کیجئے        لائے ہیں اُن کی بزم سے یار خبر الگ الگ‘‘
غیر احمدی مسلمان علماء اِن احادیث کے تضادات کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان متضاد علامات و اخبار کی تاویلات کرنے پر مجبور ہیں۔ زیرِ نظرمقالہ میں ان تاویلات کے تجزیہ اورانبیاء و مامورین کے متعلق پیشگوئیوں اور علامات کے بیان اور اُن کو سمجھنے کے بارے میں قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان احادیث کے متعلق عقیدہ ان کے اپنے الفاظ میں نقل کرکے یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان کا دعویٰ ان متضاداحادیث کی بنیاد پر نہیں ہے کیونکہ وہ پایہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور اس قدر ایک دوسرے سے متضاد ہیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی ایک عقیدہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔روایت کے ساتھ ساتھ درایت کے اعتبار سے بھی یہ احادیث مستند قرار نہیں دی جاسکتیں۔ غالبًا اسی بناء پر صحاح ستہّ یعنی احادیث کی چھ صحیح ترین کتابوں میں سے دو اہم ترین کتابوں، بخاری اور مسلم میں امام مہدی کے متعلق کسی حدیث کو درج نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ سب سے پہلے مرتب کئے جانے والے مجموعہ حدیث مؤطا میں، جسے امام مالکؒ نے مدینہ میں مرتب کیا، امام مہدی کے متعلق کوئی روایت درج نہیں ہے۔ سیرت النبی ﷺ کی مشہور کتاب ’’رحمۃ للعالمین ‘‘ کے مصنف قاضی سلیمان سلمان منصورپوری صاحب    ابن تومرت مہدی کے حالات بیان کرتے ہوئے ظہورِ مہدی کی احادیث کے متعلق لکھتے ہیں:
’’قارئین ان حالات کو پڑھیں اور دیکھیں کہ مہدی کے نام سے دنیا میں بالخصوص دنیائے اسلام میں کیا کچھ ہوچکا ہے، مجھے اس مقام پر اس قدر لکھ دینا چاہئے کہ ظہورِ مہدی کے متعلق اگرچہ روایات بکثرت ہیں جن کا شمار درجنوں پر ہے مگر ایسی حدیث ایک بھی نہیں ہے جو محدثین کے مسلمہ اصول تنقید کے مطابق صحیح مسند مرفوع کا درجہ رکھتی ہو۔ العلم عنداللہ۔‘‘ (تاریخ المشاہیر۔صفحہ 188)
مولانا عبیداللہ سندھی  لکھتے ہیں:
’’احادیث مہدی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے واسطے بہت سے علماء محدثین اور مؤرخین بھی موجود ہیں جن سے ایک عقل والے آدمی کی تسلی ہوجاتی ہے کہ یہ بات فقط شیعہ ازم کی ہے جہاں سے اہل السنۃ نے لے لی ہے۔‘‘(عقیدہ انتظارِ مسیح و مہدی ۔ ص۔11)
علامہ حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی لکھتے ہیں
’’میرے نزدیک اس موضوع پر جتنی روایات پائی جاتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔‘‘  (عقیدہ ظہورِ مہدی قرآن کریم، احادیث نبویؐ اور تاریخ کی روشنی میں۔ صفحہ۔5)
محمد منیر قمر نواب الدین صاحب  امام مہدی کے متعلق کچھ احادیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے بہت سی احادیث کے ضعیف و غریب ہونے کا اقرار کرتے ہیں:
’’امام مہدی کے بارے میں بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں اگرچہ ان میں سے زیادہ تر ضعیف و غریب ہیں۔لیکن بعض حسن درجہ کی ہیں جب کہ ان میں سے کچھ تو سند کے اعتبارسے صحیح بھی ہیں۔‘‘ (ظہورِ امام مہدی۔ایک اٹل حقیقت ۔احادیث شریفہ اور تحقیقات اہل علم کی روشنی میں۔صفحہ۔40)
ان روایات کے متعلق اپنی رائے درج کرنے کے بعد محمد منیر قمر نواب الدین صاحب  علامہ ابن خلدون کا قول بھی نقل کرتے ہیں
’’یہ کل احادیث ہیں جنہیں امام مہدی کے بارے میں ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے جن میں آیا ہے کہ وہ آخر زمانہ میں ظاہر و خارج ہوں گے۔ ان احادیث میں سے سوائے تھوڑی سی بلکہ بہت ہی تھوڑی سی احادیث کے کوئی بھی نقد و جرح سے نہیں بچ سکی۔۔۔امام بخاری و مسلم نے امام مہدی کے بارے میں کوئی حدیث اپنی کتب میں وارد نہیں کی۔ اگر ایسی کوئی حدیث صحیح ہوتی تو وہ بھی ذکر کرتے۔‘(ص۔194,195)
مشہور فلاسفر، مفکّر اور شاعر علامہ اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ میرے نزدیک مہدی، مسیحیّت اور مجددیّت کے متعلق جو احادیث ہیں وہ ایرانی اور عجمی تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ عربی تخیلات اور قرآن کی صحیح سپرٹ سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔‘‘ (کلّیات ِمکاتیب اقبال۔جلد سوم جنوری 1929تا دسمبر1934۔مرتّبہ سیّد مظفّر حسین برنی۔ناشر اردو اکادمی دہلی۔سنہ اشاعت۱۹۹۳ء)
علامہ اقبال کے اس تصور کے متعلق یہ اشعار بھی مشہور ہیں:
مینارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ                اب انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے
                                                       ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار                     وہی مہدی وہی آخر زمانی
مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رسائل و مسائل، جلد اوّل
’’یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ مہدی کے نام سے دین میں کوئی خاص منصب قائم کیا گیا ہے جس پر ایمان لانا اور جس کی معرفت حاصل کرنا ویسا ہی ضروری ہو جیسا انبیاء پر ایمان لانا، اور اس کی اطاعت بھی شرط نجات اور شرط اسلام و ایمان ہو۔ نیز اس خیال کے لیے بھی حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ مہدی کوئی امام معصوم ہوگا دراصل یہ معصومیت غیر انبیاء کا تخیل ایک خالص شیعی تخیل ہے جس کی کوئی سند کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے۔ یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و اسلام کا مدار ہے اور جن امور پر انسان کی نجات موقوف ہے، انہیں بیان کرنے کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ اور قرآن میں بھی ان کو کچھ اشارۃ و کنایۃ بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ ان کو کھول دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ان علینا للھدیٰ لہذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو اس کا ثبوت قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جاسکتی جسے مدار کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمان صحت ہے نہ کہ علم یقین اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اس خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کرسکتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر و ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو انہیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کردیا جائے۔ ایسے امور کی نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرمائے، اللہ کا رسول انہیں اپنے پیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے ان کی تبلیغ عام کرے اور وہ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے ہرہر مسلمان تک پہنچادیئے گئے ہوں۔اب مہدی کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہر حال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اسلام میں اس کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہو۔ یہ حثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوچار آدمیوں سے اس کو بیان کردینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آپ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ درحقیقت جو شخص علوم دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ باور نہیں کرسکتا کہ جس مسئلے کی دین مین اتنی بڑی اہمیت ہو اسے محض اخبار احادیث پر چھوڑا جاسکتا تھا اور اخبار احاد بھی اس درجہ کی کہ امام مالک اور امام بخاری اور امام مسلم جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے ان کا لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔‘‘
دیوبند یوپی، بھارت سے ایک ماہنامہ رسالہ ’’تجلّی‘‘ کے نام سے نکلا کرتا تھا جس کے ایڈیٹر دیوبندی  مکتبہ فکر کے ایک مشہور عالمِ دین عامر عثمانی صاحب  صاحب تھے۔عامر عثمانی صاحب نے اپنے اس رسالہ کی جون  1956ءکی اشاعت میں مودودی صاحب کےظہورِ امام مہدی کی روایات کے متعلق  اس بیان کے کچھ اقتباسات شائع کئے ہیں جو انہوں نے1953کے فسادات  کی تحقیقات کے لئے قائم کردہ عدالتی کمیشن کو دیا تھا اور اس میں بعض ضمیمہ جات بھی منسلک کئے تھے۔ان اقتباسات کے مطابق مودودی صاحب  اگرچہ ظہورِ مہدی سے تو انکار نہیں کرتے لیکن اس کے متعلق اکثر روایات کو ظاہری طور پر لینے سے انکار کرتے ہیں اور جن چند احادیث کو تسلیم کرتے ہیں ان کی بھی تاویل کرتے ہیں۔ان حوالہ جات کے مطابق، جو عامر عثمانی صاحب نے اپنے  مذکورہ بالا رسالہ میں شائع کئے ہیں، مودودی صاحب فرماتے ہیں:
’’مہدی کے مسئلے کی نوعیت نزولِ مسیح کے مسئلے سے بہت مختلف ہے۔ اس مسئلے میں دو قسم کی احادیث پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ جن میں لفظ ’’مہدی‘‘ کی تصریح ہے۔ دوسری وہ جن میں صرف ایک ایسے خلیفہ کی خبر دی گئی ہے جو آخر زمانہ میں پیدا ہوگا اور اسلام کو غالب کردے گا۔ ان دونوں قسم کی روایات میں سے کسی ایک کا بھی بلحاظ سند یہ پایہ نہیں ہے کہ امام بخاریؒ کے معیار تنقید پر پُورا اترتا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مجموعۂ حدیث میں کسی کو بھی درج نہیں کیا۔ مسلم نے صرف ایک روایت لی ہے جو لفظ مہدی سے خالی ہے۔۔۔دوسری کتابوں میں جس قدر روایات موجود ہیں ۔۔۔ان روایات میں سند سے قطع نظر کرتے ہوئے کمزوری کے متعدد پہلو ہیں۔ان کے نفس مضمون میں صریح اختلافات ہیں۔روایات نمبر ۲، ۳، ۱۰، ۱۴ اور ۱۵ کہتی ہیں کہ اس کا ظہور عباسی خاندان سے ہوگا۔نمبر ۴ اس کے ظہور کا دائرہ تمام اولاد عبدالمطلب تک پھیلادیتی ہے۔ نمبر ۵ اِس دائرے کو اور پھیلا کر تمام امت تک وسیع کردیتی ہے۔اور نمبر ۱۷ کہتی ہے کہ وہ اہل مدینہ میں سے ایک شخص ہوگا۔ پھر روایت نمبر ۱۱ و ۱۳ کہتی ہیں کہ اس کا نام نبی ﷺ کے نام پر ہوگا اور نمبر ۱۴ کہتی ہے کہ اس کا نام اور اس کے باپ کا نام دونوں آنحضرت کے اسم گرامی اور آپ کے والد کے نام پر ہوں گے۔ان سب کے برعکس نمبر ۱۲ کی رو سے اس کا نام حارث ہوگا۔اور وہ آل محمدؐ کی فرمانروائی کے لئے زمین ہموار کرے گا۔متعدد روایات میں اس امر کی اندرونی شہادت موجود ہے کہ ابتدائے اسلام میں جن مختلف پارٹیوں کے درمیان سیاسی کشمکش برپا تھی انہوں نے اپنے اپنے مفاد کے مطابق اس پیشینگوئی کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور یہ روایات ان کے سیاسی کھیل کا کھلونا بننے سےمحفوظ نہیں رہ سکی ہیں۔مثلًا روایت نمبر ایک میں خراسان کی طرف سے آنے والے سیاہ جھنڈوں کا ذکر ہے جو صاف بتاتا ہے کہ عباسیوں نے اس روایت میں اپنے مطلب کی بات داخل کی ہے کیونکہ سیاہ رنگ عباسیوں کا شعار تھا۔اور ابومسلم خراسانی نے عباسی سلطنت کے لئے زمین ہموار کی تھی۔ اسی طرح روایات نمبر ۲۔۳۔۱۰۔۱۱۔۱۴ و ۱۵ کو اگر نمبر ۴، ۱۸ اور ۱۹ کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف اس پیشینگوئی کو بنی فاطمہ نے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف بنی عباس اسے اپنی جانب کھینچ  لے گئے ہیں۔تاہم  یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تمام  روایات بالکل ہی بے اصل ہیں۔ تمام آمیزشوں سے الگ  کرکے ایک بنیادی حقیقت ان سب میں مشترک ہے۔اور وہی اصل حقیقت ہے کہ نبی ﷺ نے آخر زمانے میں ایک ایسے لیڈر کی پیشین گوئی [کی] ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، ظلم و ستم مٹادے گا، سنّت نبی پر عمل کرے گا، اسلام کو غالب کردے گا، اور خلق خدا میں عام خوشحالی پیدا کردے گا۔ مہدی کے ظہور کا خیال بہرحال انہی روایات پر مبنی ہے اور یہ روایات اس تخیّل سے بالکل خالی ہیں کہ مہدی نبوّت کے منصب کی طرح کسی دینی منصب کا نام ہے جسے ماننا اور تسلیم کرنا کسی درجے میں بھی شرعًا ضروری ہو۔نبی ﷺ نے اگر یہ لفظ استعمال کیا ہے تو شخصِ معہود کے لئے بطور ایک اسمِ صفت کے استعمال کیا ہے کہ وہ ایک ’’ہدایت یافتہ‘‘ شخص ہوگا۔اور ایک روایت نمبر ۱۲ میں  صرف اتناکہا گیا ہے کہ ’’ہر مومن پر اس کی مدد واجب ہے‘‘۔یہ بات اگر فی الواقع حضورؐ نے فرمائی ہے تو اس کا مطلب زیادہ سے زیادہ صرف یہ ہے کہ جس طرح ہر مجاہد فی سبیل اللہ اور حامیٔ حق کی مدد کرنا اور راہِ خدا میں اس کا ساتھ دینا مسلمانوں کے لئے واجب  ہے اسی طرح اس شخصِ معہود کی مدد کرنا بھی واجب ہوگا۔اس کو کسی کھینچ تان سے بھی یہ معنی نہیں پہنائے جاسکتے کہ ’’منصبِ مہدویت‘‘ کے نام سے اسلام میں کوئی دینی منصب پایا جاتا ہے جس کو ماننا یا جس پر ایمان لانا واجب ہو اور جس کو ماننے سے دنیا و آخرت میں کچھ مخصوص اعتقادی و معاشرتی نتائج پیدا ہوتے ہوں۔پھر احادیث میں کہیں اس عجیب و غریب حرکت کے لئے بھی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ کوئی آدمی ’’انا المہدی‘‘ کے نعرے سے ہی دین کا کام کرنے اٹھے اور پھر اپنی طاقت کا بڑا حصہ صرف اپنے آپ کو مہدی منوانے ہی پر صرف کردے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مہدی کے متعلق کوئی خاص عقیدہ اسلامی عقائد میں شامل نہیں ہے۔ اہل سنّت کی کتبِ عقائد اس سے بالکل خالی ہیں۔اور تاریخ کے دوران میں جتنے لوگوں نے بھی مہدویت کا دعویٰ کرکے اپنے نہ ماننے والوں کو کافر یا گمراہ یا دائرہ دین سے خارج ٹھہرا کر اپنے ماننے والوں کی الگ جماعت بندی کی ہے۔علماء اسلام نے ان سب کی مخالفت کی اور امت کی عظیم اکثریت نے ان کو رد کردیا۔۔۔کتاب علاماتِ قیامت میں جس روایت کا ذکر ہے اس کے متعلق میں نفیًا یا اثباتًا کچھ نہیں کہہ سکتا۔اگر وہ صحیح ہے اور فی الواقع حضورؐ نے یہ خبر دی ہے کہ مہدی کی بیعت کے وقت آسمان سے ندا آئے گی کہ ھذا خلیفۃ اللہ المھدی فاستمعوا لہٗ و اطیعوا (یہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں ان کے فرامین سنو اور اطاعت کرو) تو یقینًا میری  وہ رائے غلط ہے جو’’ تجدید و احیائے دین‘‘ میں میں نے ظاہر کی ہے۔لیکن مجھے یہ توقع نہیں کہ حضورؐ نے ایسی بات فرمائی ہوگی۔‘‘( سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا عدالتی بیان بحوالہ تجلّی دیوبند جون1956؁ء صفحہ۔19,20,21)
اس بیان کو نقل کرنے کے بعد عامر عثمانی صاحب ایڈیٹر ’’تجلی‘‘ ظہورِ مہدی  کے متعلق روایات پر سیر حاصل اور تائیدی تبصرہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
’’نقل کردہ تمام عبارات سے محض یہی ثابت ہوتا ہے کہ ظہورِ مہدی کا عقیدہ درست ہے نہ یہ کہ تمام خرافات جو موضوع و محرّف روایات کے سہارے اس کے ساتھ وابستہ کرلی گئی ہیں ٹھیک ہیں۔۔۔اب صورتحال یہ ہے کہ ’’مہدی‘‘ کا ذکر قرآن میں تو کہیں ہے نہیں۔ نہ اشارۃً نہ کنایۃً۔۔۔بخاری اور مؤطا امام مالک دونوں اس سے قطعًا خالی ہیں۔ اور واضح رہے کہ بخاری سے پہلے مؤطا امام مالک ہی کو اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کا درجہ حاصل تھا۔ رہی مسلم تو بالیقین یہ بھی ذکر مہدی سے بالکل خالی ہے۔ ۔۔اب رہ گئیں دوسری کتب احادیث، تو اگر کوئی ایک روایت متعیّنہ تفصیلات کے ساتھ ان سب میں پائی جاتی تو بیشک بات قابل توجہ تھی لیکن روایات میں باہم جتنا اختلاف ہے وہ آپ نے مودودی صاحب کے ضمیمہ میں ملاحظہ فرمالیا۔۔۔میرا مطلب یہ نہیں کہ یہ روایتیں جھوٹی ہیں۔لیکن اگر ہم  بنو فاطمہ اور بنو عباس کی کشمکش کو نظر انداز کرتے ہوئے اور بنو امیہ کی تاریخ پسِ پشت ڈلتے ہوئے ہر اُس روایت پر ایمان لانے بیٹھ جائیں جسے کسی کتابِ حدیث میں لکھ دیا گیا ہے تو آخر ہم امام مہدی کو خُراسان سے آنے والا مانیں گے یا مدینہ سے؟ ان کا نام حارث مانیں گے یا محمد؟ بنوفاطمہ میں سے مانیں گے یا بنو عباس میں سے؟۔۔۔مولانا مودودی نے مضطرب اور مختلف روایات سے جو بنیادی حقیقت لی ہے اسی کا اثبات مولانا اشرف علی اور مولانا انور شاہ صاحب اور دیگر علمائے حق کرتے ہیں اور ٹھیک ایسی ہی بات ابن خلدون نے احادیثِ مہدی بیان کرنے کے بعد کہی ہے کہ: فَھٰذِہٖ جُمْلَۃُ الْاَحَادِیْثِ الَّتِی خَرَّجَھَا الائمۃُ فِی شَانِ الْمَھْدِی وَ خُروجہٖ آخرُ الزَّمانِ وَھِیَ کَمَا رَاَیْتَ لَمْ یَخْلَصْ مِنْھَا مِنَ النَّقْدِ اِلَّا الْقَلِیْلُ وَالْاَقَلُّ مِنہُ۔ پس یہ تمام حدیثیں جن کی تخریج ائمہ نے مہدی کی شان میں اور ان کے آخر زمانے میں پیدا ہونے کے بارے میں کی ہے ان کا حال جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو یہ ہے کہ نقد کے بعد ان میں سے بہت کم بہت ہی کم جوہرِ خالص نکلتا ہے (مقدمہ ابن خلدون)۔ روایاتِ مہدی کا پایۂ روایت۔ غیر جانبداری سے اگر تاریخ پر نظریں  ڈالی جائیں تو معلوم ہوگا کہ ظہورِ مہدی کی روایتیں پھیلانے میں شیعہ حضرات نے اور بنو امیہ نے اور بنو عباس  نے اپنی اپنی دنیاوی منفعتوں اور حرص و ہوا کی خاطر خوب کام لیا  ہے۔ بنو امیہ کے ہاتھوں شیعہ حضرات جب بری طرح پائمال ہوگئے اور ان کی تمام جماعت میں ایک ہمہ گیر مایوسی چھا گئی تو ان کے سمجھ دار لوگوں نے مہدی موعود کے تصور کو بایں طور ابھارا کہ مایوسی امید میں بدلی اور پیاسوں کو ایک ایسا سراب نظر آگیا جسے وہ مدّت تک پانی سمجھ کر گرماگرم دوڑ لگاتے رہے۔بعدہٗ بنو امّیہ نے اس تخیل کو اپنے مفادات کے سانچے میں ڈھالا اور ان کے بعد بنوعباس نے برسراقتدار آنے پر اُن لوگوں کی خاطر ’’ظہورِ مہدی‘‘ کی روایات کو تحریف و ترمیم کے ساتھ ابھارا جنہوں نے بنوہاشم کے لئے بنو امّیہ کا تختہ الٹا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام کو سمجھایا جاسکے کہ تخت کے صحیح حقدار بنو عباس ہیں۔۔۔سچ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے ضمیمہ میں جتنی روایات ذکر کی ہیں قریب قریب سب مقامِ ثقاہت اور پایۂ حجیّت سے ہٹی ہوئی ہیں سوائے روایت مسلم کے۔تو روایت مسلم پر مولانا مودودی کا اعتقاد صراحۃً ظاہر ہوچکا اور مزید ثبوت چاہئے تو ’’تجدید احیاء و دین‘‘ دیکھ ڈالئے اس میں اسی حدیثِ مسلم کا مفہوم و مطلب مولانا نے بیان فرمایا ہے۔ رہی یہ بات کہ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ مسلم میں ’’مہدی‘‘ کا ذکر نہیں تو یہ تو ایسی حقیقت ہے جسے اندھا بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہی بات ابن خلدون نے کہی ہے ولا دلیلٌ یقوم علی انہ المراد منھا۔(مقدمہ) اور کوئی دلیل اس بات کی نہیں ہے کہ (مسلم کی روایت سے) ’’مہدی‘‘ مراد ہیں۔۔۔ایسا کوئی بھی عالم جو دین کو محض گورکھ دھندا نہ سمجھتا ہو، بلکہ اسے ایک زندہ قابل عمل لائحہ زندگی تصور کرتا ہو کبھی ایسی روایتوں پر بھروسہ نہ کرے گا جنہیں بخاری و مسلم جیسے معتبر محدثین نے قابل ترک سمجھا ہو اور جن میں اسلام کی ثقاہت و متانت کو پامال کردینے والی خوش خیالیاں اور پیشین گوئیاں ہوں۔ ظہورِ مہدی سے متعلق روایات میں وارد شدہ تفصیلات کو قابل قبول سمجھنے والوں نے شاید کبھی عقلی طور پر غور ہی نہیں کیا کہ صادق و مصدوق ﷺ کی پیشین گوئی کا مطلب ہے کیا۔ وہ سر کے عماموں اور دوسوتیوں اور سیاہ جھنڈوں وغیرہ کو عملی دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی جرأت نہیں کرتے بلکہ انکا تصور کچھ ایسا ہے کہ اچانک ایک لمبی داڑھی والے صوفی صاحب ظہور پذیر ہوکر تعویذات و عملیات یا پھر جادو کے ذریعہ تمام دنیا پر چھاجائیں گے اور دنیا گویا ایک تھیلی ہے کہ جس میں ظلم و ستم بھرا ہوگا۔اور وہ اس تھیلی میں سے ظلم و ستم نکال کر عدل و انصاف نام کے کھلونے ڈال دیں گے۔اس طرح کا تخیّل اسلام جیسے عملی اور عقلی مذہب کے لئے کہاں تک موزوں ہے اسے ہر صاحبِ عقل و فہم دیکھ سکتا ہے۔ ظہورِ مہدی ہوگا اور ضرور ہوگا۔لیکن اگر وہ ایٹمی یا ہائیڈروجنی دور میں ہوا تو مہدی کو جھنڈوں اور پیدلی دستوں کی تکنک کے بجائے توپوں اور بموں اور ہوائی جہازوں کی تکنک سے مربوط ہونا پڑے گا۔اور ظلم و ستم سے بھری ہوئی دنیا محض پھونکوں سے منقلب نہیں ہوگی بلکہ اس انقلاب کے لئے لازمًا ایسے ہی اسباب پیدا ہوں گے جو اللہ کے قوانین جہانبانی کے مطابق ہوسکیں۔ یہ انقلاب دستی بیعتوں اور یکلخت فوجی حملوں کے ذریعہ نہیں ہوگا۔بلکہ اس کے لئے ابتداءً ایک عظیم تحریکِ اصلاح اور معرکۃ الآراء دعوت و عزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس کے بعد اس وقت کی دنیا کے حالات اور باطل قوتوں کے آلات سے پنجہ کشی کرنی ہوگی۔سائنس سے آنکھ ملانی ہوگی۔ علوم رائجہ سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا۔اور اگر آج کی دنیا کسی حادثہ سے پہلے ہی تباہ ہوگئی اور علم و سائنس کی مادیات کا ارتقاء موت کے منہ میں چلا گیا اور کسی ایسے دور نے جنم لیا جو موجودہ علم و سائنس سے بالکل خالی ہو اور تلوار کے زمانے جیسا ہو تب بے شک مہدی جھنڈا لے کر شام یا مدینہ سے نکل سکتے ہیں، لیکن اس وقت یہ تخیل محض طفلانہ ہوگا کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائیں گے اور تمام دنیا کو ان کی امامت تسلیم کرلینی چاہئے۔کیونکہ اللہ کی وسیع دنیا کا کسی ایک دنیاوی اقتدار کے ماتحت آجانا اسی وقت ممکن ہے جب سائنس کے ترقی یافتہ آلات اور مشینیں اس وسیع سرزمین کو ایک شہر یا ملک کی حیثیت دے سکیں جیسا کہ آج کل ہے۔لیکن جس صورت میں کہ سائنس اور اس کی اختراعات کا عدم اور فقدان تسلیم کرلیا گیا تو کسی بھی فردِ واحد کے لئے تمام عالم کی حکمرانی کا امکان آخر کیونکر معقول ہوسکتا ہے؟‘‘ (تجلّی دیوبند جون1956؁ء)
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ادارہ تنظیم اسلامی کے تحت شائع ہونے والے رسالہ میثاق میں ایک مضمون نگار حضرت امام مہدی علیہ السلام کی روایات پر شک کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں سنت انبیاء علیہم السلام خصوصًا نبی اکرم ﷺ کی جدوجہد اور مکفّرین  کی مخالفت کے منافی قرار دیتے ہیں:
’’۔۔۔حضرت امام مہدی کے متعلق وارد شدہ تمام روایات سے یہ حقیقت بھی مترشح ہوتی ہے کہ وہ نہ تو انبیاء و رُسل کی طرح دعوت دین کی کسی تحریک کا آغاز کریں گے اور نہ ہی اس دعوت و تحریک کو پھیلانے کے لیے ایک طویل و صبر آزما جدوجہد کریں گے بلکہ ان کا ظہور تو اچانک و دفعۃً ہوگا، ایک جماعت کثیر ان کی اطاعت پر آمادہ و مستعد ہوگی اور ان کی قیادت میں فتوحات پر فتوحات حاصل کرنا شروع کردے گی۔ جبکہ ایسا ہونا نہ تو عملًا ممکن ہے اور نہ ہی تاریخی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی آمد کی پیشین گوئیاں تمام الہامی کتب میں موجود تھیں، مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی آمد پر بھی ایسا کوئی معجزہ ظہور پذیر نہ ہوا تھا کہ لوگوں نے فی الفور آپؐ کی اطاعت کرنا شروع کردی ہو۔ وہ یہودی جو آپ ﷺ کی آمد سے قبل مشرکین عرب کو آپؐ کے ظہور کے حوالہ سے خبردار کیا کرتے تھے، انہوں نے بھی آپ ﷺ کی نہ صرف اطاعت سے انکار کیا تھا بلکہ آپ ﷺ کے بدترین دشمن بھی ثابت ہوئے تھے۔ تو پھر ظہورِ حضرت مہدی کی حقیقت کیا ہے؟ کیا صدیوں سے قائم فرسودہ ظالمانہ نظام کو یکایک بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا حضرت مہدی کے لیے ممکن ہوسکتا ہے؟ ‘‘ (محمد نذیر یٰسین۔ بحث و نظر ۔حضرت امام مہدی ۔ خلیفہ اوّل ۔ دوم ۔ یا سوم۔ ماہنامہ میثاق جنوری۔2010)
آپ نے دیکھا کہ بڑے بڑے صاحب عقل و نظر محققین علماء ظہورِ مہدی  پر مبنی احادیث و روایات کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن علماء من گھڑت تاویلات کرکے عوام سے یہ توقع کرتے ہیں ، بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی کی گئی تاویلات کو الٰہی نوشتہ سمجھ کر من و عن تسلیم کرلیا جائے اور ایسانہ ماننے والے کوکافر اور خارج از اسلام قرار دے دیتے ہیں۔ ان پر یہودونصاریٰ کے علماء کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ قول صادق آتا ہے : یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ        اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے (سورۃ البقرۃ۔ 2:80)


پیشگوئیوں اور علامات کے بارے میں قرآنی تعلیم
ایمان بالغیب اصل ایمان ہے
ایک مسلمان کے عقائد کی بنیاد قرآن کریم ہونا چاہئے۔ بعض علماء اپنے آبائی اعتقادات کی وجہ سے اس بنیاد کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بعض مسلمان علماء قرآنِ کریم کو اختلافی مسائل کے حل کے لئے بنیاد نہیں بناتے ۔ان کا پیشگوئیوں پر مشتمل احادیث کے استعارہ کی حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ان کی ظاہری علامات پر ایمان کے عقیدے پر زور ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:   ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ * الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (سورۃ البقرۃ۔2:3,4 ) یہ (قرآن) متقیوں کے لئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں
ظاہری علامات طلب کرنے والے کبھی ایمان نہیں لاتے!
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظاہری آیات و نشانات ایمان کا موجب نہیں بنتے اور  اگر نشانات کا مطالبہ کرنے والوں کو تمام نشان دکھا بھی دئیے جائیں تو وہ تب بھی ایمان نہیں لاتے :
 وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُوْمِنُوْا بِھَاط (الانعام ۔ 6:26) اور اگر وہ تمام نشان بھی دیکھ لیں تو اُن پر ایمان نہیں لائیں گے۔
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جَآءَ تْھُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِھَا ط قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَاللّٰہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ لا اَنَّھَااِذَا جَآءَ تْ لَا یُؤْمِنُوْنَ* (الانعام۔6:110 )
وہ اللہ کی پختہ قسمیں کھاکر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک بھی نشان آجائے تو وہ اس پر ضرور ایمان لے آئیں گے۔ تو کہہ دے کہ ہر قسم کے نشانات اللہ کے پاس ہیں۔ لیکن تمہیں کیا سمجھائے کہ جب وہ (نشانات) آتے ہیں وہ ایمان نہیں لاتے۔
اس قرآنی تعلیم کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ظاہری علامات طلب کرنے والے اگر یہ علامات دیکھ بھی لیں تب بھی ایمان نہیں لاتے جبکہ ایک سعید فطرت انسان ظاہری علامات طلب نہیں کرتا بلکہ دل کی آنکھوں یعنی علی وجہ البصیرت ایک مامور من اللہ کی صداقت کو پہچان لیتا ہے۔
بصارت نہیں بصیرت
عربی زبان میں آنکھوں سے دیکھنے کو بصارت کہتے ہیں جبکہ دل سے دیکھنے کو بصیرت کہتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کو ارشاد ہوا : قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط تُو کہہ دے کہ یہ میرا راستہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں بصیرت پر ہوں اور وہ بھی جس نے میری پیروی کی۔ (سورۃ یوسف۔ 12 : 109 )نبی اکرم ﷺ نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ میری امّت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں صرف ایک فرقہ صحیح راستے پر ہوگا تو صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ ناجی فرقہ کون سا ہوگا ۔ اس ناجی فرقہ کی علامت بتاتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، ’’ما انا علیہ و اصحابی ‘‘ ناجی فرقہ وہ ہوگا جو اس راہ پر ہوگا جس پر میں اور میرے صحابہؓ ہیں۔ (ترمذی کتاب الایمان باب افتراق ھذہ الامۃ) اس حدیث کو سورہ یوسف کی مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ نبی اکرم ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرام ؓ جس راہ پر ہیں اس کا نام ’’بصیرت ‘‘ ہے۔
علامات ظاہر ہونے کے بعد ایمان لانا فائدہ نہیں دیتا
قرآن و حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری علامات پوری ہوتی دیکھ کر ایمان لانے والے کا ایمان اس کو نفع نہیں دیتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۔۔۔یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْ اِیْمَانِھَا خَیْرًاط
اس دن جب تیرے رب کے بعض نشانات ظاہر ہوں گے کسی ایسی جان کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لائی ہو یا اپنے ایمان کی حالت میں کوئی نیکی نہ کما چکی ہو۔ (سورۃ الانعام۔159:6)
یہی مضمون حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے:
’’سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ پس جب وہ طلوع ہوگا اور لوگ اسے دیکھیں گے اور اس پر ایمان لے آئیں گے لیکن اس وقت کا ایمان کسی کو نفع نہیں دے گا سوائے اس کے جو پہلے سے ایمان نہ لا چکا ہو۔‘‘ (بخاری کتاب التفسیر)
بانئ جماعت احمدیہ ؑ کے دعویٰ مہدویت و مسیحیت کی بنیاد قرآنِ کریم
امام مہدی ؑ اور مسیح موعود ؑ کے متعلق احادیث کا جائزہ لینے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کی بنیاد قرآنِ کریم اور اس کے تابع احادیث پر ہے۔ حضور ؑ فرماتے ہیں:
’’پھر مولوی ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو مسیح موعود کی پیشگوئی کا خیال کیوں دل میں آیا آخر وہ حدیثوں سے ہی لیا گیا پھر حدیثوں کی اور علامات کیوں قبول نہیں کی جاتیں۔یہ سادہ لوح یا تو افتراء سے ایسا کہتے ہیں اور یا محض حماقت سے۔اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں۔ اور دوسری حدیثوں کو ہم ردّی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ اگر حدیثوں کا دنیا میں وجود بھی نہ ہوتا تب بھی میرے اس دعوے کو کچھ حرج نہ پہنچتا تھا۔ہاں خدا نے میری وحی میں جابجا قرآن کریم کو پیش کیا ہے۔ چنانچہ تم براہین احمدیہ میں دیکھو گے کہ اس دعوے کے متعلق کوئی حدیث بیان نہیں کی گئی۔ جابجا خدا تعالیٰ نے میری وحی میں قرآن کو پیش کیا ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح ص۔ 36 روحانی خزائن جلد 19 ص140)
حضور ؑ فرماتے ہیں کہ ان کی صداقت کا معیار وہی ہے جو سابقہ انبیاء علیہم السلام کی صداقت کا معیار تھا:
’’خدا تعالیٰ کے الہام اور وحی سے کہتا ہوں وہ جو آنے والا تھا وہ میں ہوں۔ قدیم سے خدا تعالیٰ نے منہاجِ نبوّت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے۔‘‘ (ملفوظات۔جلد چہارم ص۔ 39)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’حقیقۃ المہدی ‘‘ میں امام مہدی ؑ کے متعلق احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’مہدی اور مسیح موعود کے بارے میں جو میرا عقیدہ اور میری جماعت کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اس قسم کی تمام حدیثیں جو مہدی کے آنے کے بارے میں ہیں ہرگز قابلِ وثوق اور قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔ میرے نزدیک ان پر تین قسم کا جرح ہوتا ہے یا یوں کہو کہ وہ تین قسم سے باہر نہیں۔ (۱) اوّل وہ حدیثیں کہ موضوع اور غیر صحیح اور غلط ہیں اور ان کے راوی خیانت اور کذب سے متہم ہیں اور کوئی دیندار مسلمان ان پر اعتماد نہیں پکڑ سکتا۔ (۲) دوسری وہ حدیثیں ہیں جو ضعیف اور مجروح ہیں اور باہم تناقض اور اختلاف کی وجہ سے پایۂ اعتبار سے ساقط ہیں۔اور حدیث کے نامی اماموں نے یا تو ان کا قطعًا ذکر ہی نہیں کیا اور یا جرح اور بے اعتباری کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور توثیق روایت نہیں کی یعنی راویوں کے صدق اور دیانت پر شہادت نہیں دی۔ (۳) تیسری وہ حدیثیں ہیں جو درحقیقت صحیح تو ہیں اور طرق متعددہ سے ان کی صحت کا پتہ ملتا ہے لیکن یا تو وہ کسی پہلے زمانہ میں پوری ہوچکی ہیں اور مدت ہوئی کہ ان لڑائیوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب کوئی حالتِ منتظرہ باقی نہیں اور یا یہ بات ہے کہ ان میں ظاہری خلافت اور ظاہری لڑائیوں کا کچھ بھی ذکر نہیں صرف ایک مہدی یعنی ہدایت یافتہ انسان کے آنے کی خوشخبری دی گئی ہے اور اشارات سے بلکہ صاف لفظوں میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کی ظاہری بادشاہت اور خلافت نہیں ہوگی اور نہ وہ لڑیگا اور نہ خونریزی کرے گا اور نہ اس کی کوئی فوج ہوگی اور روحانیت اور دلی توجہ کے زور سے دلوں میں دوبارہ ایمان قائم کردے گا جیسا کہ حدیث لا مھدی الّا عیسیٰ جو ابن ماجہ کی کتاب میں جو اسی نام سے مشہور ہے اور حاکم کی کتاب مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے اور یہ روایت محمد بن خالد جندی نے ابان بن صالح سے اور ابان بن صالح نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نے جناب رسول اللہ ﷺ سے کی ہے اور اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بجز اس شخص کے جو عیسیٰ کی خو اور طبیعت پر آئے گا اور کوئی بھی مہدی نہیں آئے گا۔ یعنی وہی مسیح موعود ہوگا اور وہی مہدی ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خُو اور طبیعت اور طریقِ تعلیم پر آئے گا یعنی بدی کا مقابلہ نہ کرے گا اور نہ لڑے گا اور پاک نمونہ اور آسمانی نشانوں سے ہدایت کو پھیلائے گا اور اسی حدیث کی تائید میں وہ حدیث ہے جو امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں لکھی ہے جس کے لفظ یہ ہیں کہ یضع الحرب یعنی وہ مہدی جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے دینی لڑائیوں کو قطعًا موقوف کردے گا۔ اور اس کی یہ ہدایت ہوگی کہ دین کے لئے لڑائی مت کرو۔ بلکہ دین کو بذریعہ سچائی کے نوروں اور اخلاقی معجزات اور خدا کے قرب کے نشانوں سے پھیلاؤ۔ سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص اس وقت دین کے لئے لڑائی کرتا ہے یا کسی لڑنے والے کی تائید کرتا ہے یا ظاہر یا پوشیدہ طور پر ایسا مشورہ دیتا ہے یا دل میں ایسی آرزوئیں رکھتا ہے وہ خدا اور رسول کا نافرمان ہے۔ ان کی وصیتوں اور حدود اور فرائض سے باہر چلا گیا ہے۔‘‘ (حقیقۃ المہدی۔ص 3 تا6 ۔ روحانی خزائن جلد 14 ص 429-432))
حضورؑ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’یہی سنّت اللہ ہے کہ جو جو علامتیں پیشگوئیوں میں کسی آنے والے نبی کے بارہ میں لکھی جاتی ہیں وہ تمام باتیں اپنے ظاہری الفاظ کے ساتھ ہرگز پوری نہیں ہوتیں۔ بعض جگہ استعارات ہوتے ہیں بعض جگہ خود اپنی سمجھ میں فرق پڑجاتا ہے اور بعض جگہ پرانی باتوں میں کچھ تحریف ہوجاتی ہے۔اس لئے تقویٰ کا طریق یہ ہے کہ جو باتیں پوری ہوجائیں ان سے فائدہ اٹھائیں اور وقت اور ضرورت کو مدنظر رکھیں اور اگر تمام مقرر کردہ علامتوں کو اپنی سمجھ سے مطابق کرنا ضروری ہوتا تو تمام نبیوں سے دستبردار ہونا پڑتااور انجام اس کا بجز محرومی اور بے ایمانی کے کچھ نہ ہوتا کیونکہ کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس پر تمام قراردادہ علامتیں ظاہری طور پر صادق آگئی ہوں۔ کوئی نہ کوئی کسر رہ گئی ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی ص۔ 216, 217 روحانی خزائن جلد22)

پیش گوئیوں اور بشارات کے اصول
’’بشارات خواب سا مضمون رکھتی ہیں۔یہ عوام پر بھی اور خواص پر بھی مشتبہ ہوتی ہیں۔ عیسائیوں کے نزدیک جس کی نسبت بشارت ہو کبھی کبھی اسے بھی سمجھ نہیں آتی۔ بشارات میں ذاتی کی بجائے صفاتی نام ہوتے ہیں۔ جیسے مسیح کا ذاتی نام یسوع ہے لیکن پیشگوئیوں میں مسیح موجود ہے۔ بشارات میں مقامات اور ملکوں کے نام بھی صفاتی ہیں۔بشارات کی مدت میں انسانی مدت نہیں ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے، ’’یعنی اللہ کے ہاں ایک دن تمہارے شمار سے ہزار برس ہوتا ہے۔‘‘ اگر بشارات کا کوئی حصہ عقل اور علم کے خلاف ہو تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔بشارات کا افسانوی حصہ واقعات کی تعبیر کے مطابق قبول کرنا چاہئے۔نبی کے متعلق دوبارہ مبعوث ہونے کی بشارت کا مطلب ہے کہ اس نبی کی صفات جیسا دوسرا نبی مبعوث ہوگا۔‘‘(تقابل ادیان۔مذاہب کا تقابلی مطالعہ ۔نصاب برائے ایم اے اسلامیات،پنجاب یونیورسٹی، لاہور، پاکستان از قلم پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ)
نبی اکرم ﷺ کے متعلق بائبل میں پیشگوئی
تمام مسلمان علماء کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ بائیبل میں مذکوریہ پیشگوئی آنحضرت ﷺ کے متعلق ہے:
’’خداوند سینا سے آیا۔ شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لئے تھی۔‘‘ (استثناء ۔باب33 آیت1,2)
بظاہر اس پیشگوئی میں خدا اور قدوسیوں یعنی فرشتوں کے آنے کا ذکر ہے لیکن تمام مسلمان علماء اس سے بالترتیب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ظاہر ہونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بطور نبی ظاہر ہونااور نبی اکرم ﷺ کا فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار صحابہ کرامؓ کے ساتھ آنا مراد لیتے ہیں۔تمام غیر احمدی مسلمان علماء ، چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنّت کے کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں، یہاں ظاہری علامت کے پورا ہونے پر اصرار نہیں کرتے ۔لیکن سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی پر بعینہہ یہودونصاریٰ والے اعتراضات کرتے ہوئے مسیؑح و مہدی ؑ کے متعلق علامات کے لفظ بہ لفظ پورا ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔
علماء کا خود ساختہ منظر نامہ
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مہدی ؑ و مسیؑح کے متعلق احادیث میں واضح تضاد اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب اپنے ظاہری معنی میں آنحضرت ﷺ سے منسوب نہیں ہوسکتیں۔ علماء نے ان میں پائے جانے والے لاینحل تضادات کو عوام کی نظروں سے چھپا کران احادیث کے ڈھیر میں سے چند احادیث منتخب کیں اور ایک مخصوص عقیدہ وضع کرکے مسلمانوں کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ گویا اس موضوع پر صرف یہی احادیث پائی جاتی ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ ان علماء نے ایسی احادیث کو ایک خاص ترتیب دے کر سارے واقعات کوکسی ڈرامے کے منظر نامہ کی طرح ڈھالا اور لوگوں کو یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ یہ سارے واقعات اسی طرح ایک دوسرے کے بعد رونما ہوں گے۔دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث بدر عالم میرٹھی صاحب نے اپنی کتاب ’’ترجمان السنّۃ ‘‘ کے باب ’’الامام المہدی ‘‘ میں اس سکرپٹ کی تیاری کا اعتراف کیا ہے۔ اسی اعترافی بیان کو مفتی نظام الدین شامزئی نے اپنی کتاب ’’عقیدہ ظہور مہدی احادیث کی روشنی میں ‘‘ کی ابتداء میں لفظ بہ لفظ نقل کرکے اس کی گویا تصدیق کی ہے۔بدر عالم میرٹھی صاحب شاہ رفیع الدّین محدّث دہلوی ؒ کی کتاب ’’علامات قیامت ‘‘ میں امام مہدیؑ و مسیؑح موعود کے متعلق بیان کردہ احادیث نقل کرنے کے بعد حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ شاہ صاحب موصوف (شاہ رفیع الدین صاحب) نے یہ تمام سرگذشت گو حدیثوں کی روشنی ہی میں مرتب فرمائی ہے جیسا کہ احادیث کے مطالعہ سے واضح ہے مگر واقعات کی ترتیب اور بعض جگہ ان کی تعین یہ دونوں باتیں خود حضرت موصوف ہی کی جانب سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث و قرآن میں جو قصص و واقعات بیان کئے گئے ہیں خواہ وہ گذشتہ زمانے سے متعلق ہوں یا آئندہ سے ان کا اسلوب بیان تاریخی کتابوں کا سا نہیں بلکہ حسب مناسبت مقام ان کا ایک ایک ٹکڑا متفرق طور پر ذکر میں آگیا ہے۔پھر جب ان سب ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے تو بعض مقامات پر کبھی اس کی کوئی درمیانی کڑی نہیں ملتی۔ کہیں ان کی ترتیب میں شک و شبہ رہ جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر بعض خام طبائع تو اصل واقعہ کے ثبوت ہی سے دست بردار ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ غور یہ کرنا چاہئے کہ جب قرآن و حدیث کا اسلوب بیان ہی وہ نہیں جو آج ہماری تصانیف کا ہے تو پھر حدیثوں میں اس کو تلاش ہی کیوں کیا جائے؟ نیز جب ان متفرق ٹکڑوں کی ترتیب صاحب شریعت نے خود بیان ہی نہیں فرمائی تو اس کو صاحب شریعت کے سر کیوں رکھ دیا جائے۔ لہٰذا اگر اپنی جانب سے کوئی ترتیب قائم کرلی گئی ہے تو اس پر جزم کیوں کیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ جو ترتیب ہم نے اپنے ذہن سے قائم کی ہے حقیقت اس کے خلاف ہو۔ اس قسم کے اور بھی بہت سے امور ہیں جو قرآنی اور حدیثی قصص میں تشنہ نظر آتے ہیں۔ اس لئے یہاں جو قدم اپنے رائے سے اٹھایا جائے اس کو کتاب و سنت کے سر رکھ دینا ایک خطرناک اقدام ہے اور اس ابہام کی وجہ سے اصل واقعہ کا انکار کرڈالنا یہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔‘‘ (الامام المہدی ۔تالیف سیّد بدر عالم میرٹھی حاشیہ ص۔9۔ناشر مکتبہ سیّد احمد شہید۔10 الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور)
تاریخ دہرائی جارہی ہے!
علاماتِ مسیؑح و مہدی ؑ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ ظاہری الفاظ میں پوری ہوں گی اور جب تک وہ تمام باتیں ویسے ہی ظہور میں نہ آجائیں جیسا کہ لکھی گئی ہیں تب تک کسی شخص کو بھی امام مہدی یا مسیح موعود نہیں مانا جاسکتا۔غیر احمدی علماء کا یہ اصرار ہمیں ان یہودی فقیہوں اور فریسیوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اسی لئے ماننے سے انکار کردیا تھا کہ تورات میں ان کے متعلق بیان کردہ علامات ظاہری طور پر پوری نہیں ہوئی تھیں۔یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بھی ظاہری علامات طلب کرتے تھے:
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃًفَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ! ہم ہرگز تمہاری نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ کو ظاہر و باہر نہ دیکھ لیں۔پس تمہیں آسمانی بجلی نے آپکڑا اور تم دیکھتے رہ گئے(سورۃ البقرۃ۔2:56 )
یہودیوں نے اس واقعہ سے کوئی سبق نہ سیکھا اور ایک مرتبہ پھر یہی غلطی کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ظاہری علامات کے پورا ہونے کا مطالبہ کیا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان علامات کی تاویل کی اور انہیں ظاہری کی بجائے استعاراتی بتایا تو انہوں نے نہ صرف اُن کا انکار کردیا بلکہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔
ایک یہودی ربائی جے عمانویل شوخت نے اپنی کتاب ’’ Mashiach--Principles of Mashiach and the Messianic Era in Jewish Law‘‘ کے پہلے باب ’’ The Belief in Mashiach‘‘ کے شروع میں لکھا ہے:
’’مسیح کی آمد اور اس کے ذریعہ آزادی و نجات کا عقیدہ یہودی مذہب کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ ہر یہودی کو لازمی طور پر یہ یقین رکھنا چاہئے کہ مسیح ظاہر ہوگا اور وہ داؤد کی سلطنت کو اس کی اصل شان و شوکت میں بحال کرے گا، ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا، تمام منتشر یہودیوں کو اسرائیل میں اکٹھا کرے گا اور اس کے دور میں تورات کے قوانین اسی طرح بحال ہوجائیں گے جس طرح وہ اولین زمانے میں تھے۔ جو اس بات میں یقین نہیں رکھتا اور اس کی آمد کا منتظر نہیں ہے، اس کا انکار نہیں کرتا بلکہ دیگر انبیاء کی باتوں، تورات (موسیٰ کی پانچ کتابیں) اور ہمارے استاد موسیٰ کا انکار کرتا ہے۔‘‘
انسائکلوپیڈیا جوڈیکا جلد۔14میں زیر عنوان ’’مسیح ‘‘ لکھا ہے:
’’مسیح ۔۔۔ایک ممسوح بادشاہ، داؤد کی اولاد میں ودیعت کی گئی ایک کرشماتی شخصیت جس کے متعلق رومی دور کے یہودی یقین رکھتے تھے کہ خدا اسے کھڑا کرے گا تاکہ وہ کفار کے غلبہ کو توڑے اور اسرائیل کی سلطنت کو بحال کرے جس کی طرف تمام دنیا میں بکھرے ہوئے یہودی واپس لوٹیں گے۔‘‘
غیر احمدی مسلمان علماء کی یہودونصاریٰ سے مشابہت
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مخالفین ہر دور میں ایک ہی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں
۔۔۔کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّثْلَ قَوْلِھِمْ ط تَشَابَھَتْ قُلُوْبُھُمْ ط ۔۔۔* (البقرۃ۔2:119)
 ۔۔۔اسی طرح ان لوگوں نے بھی جو ان سے پہلے تھے ان کے قول کے مشابہ بات کی تھی۔ ان کے دل آپس میں مشابہ ہوگئے ہیں۔ ۔۔
اَتَوَاصَوْا بِہٖ ج بَلْ ھُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ *               کیا اسی کی وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں؟ بلکہ یہ ایک سرکش قوم ہیں۔ (الذٰریٰت51:53)
اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت آخری دور میں یہود و نصاریٰ کے ایسے مشابہ ہوجائے گی جیسے بالشت بالشت کے اور قدم قدم کے مشابہ ہوتا ہے (بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)۔  یہودی اور عیسائی بائیبل میں نبی اکرم ﷺ کے متعلق پیشگوئیوں کے بارے میں اسی نوعیت کے اعتراضات کرتے ہیں جو غیر احمدی مسلمان علماء سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کرتے ہیں۔Theodore Pulcini   عباسی خلیفہ المہدی اور ایک نسطوری پادری ٹموتھی کے درمیان ہونے والی خط و کتابت نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’ ٹموتھی نے یہ بھی کہا کہ اگر محمدؐ کا ذکر انجیل میں ہوتا تو یہ لازمی تھا کہ اُن کا نام، ان کی والدہ کا نام اور ان کے لوگوں کا کتابوں میں وضاحت سے ذکر کیا جاتا جیسا کہ تورات اور نبیوں کی کتابوں میں مسیح علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ لیکن اس نوعیت کا کوئی بھی ذکر نہ تو تورات اور نبیوں کی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور نہ ہی انجیل میں۔‘‘ ( ( P-17 Exegesis as Polemical Discourse - Ibn Hazm on Jewish and ChristianScriptures   
اب ایک ممتاز دیوبندی عالم مفتی محمد شفیع صاحب کی مندرجہ ذیل عبارت  دیکھئے کہ اس میں اور مذکورہ بالا نسطوری عیسائی پادری کی بات میں کس قدر مشابہت ہے۔
’’مگر عجب تماشہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی امت کو خلفائے راشدین کے اقتداء کا حکم فرماتے ہیں، ائمہ دین اور امراء کی اطاعت کی تعلیم دیتے ہیں، بلکہ ایک حبشی غلام کی بھی (جب کہ وہ امیر بن جائے) اطاعت امّت پر واجب قرار دیتے ہیں، مواقع اشتباہ و اختلاف میں اہل علم و اجتہاد کی تقلید کی تاکید کرتے ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور عمار بن یاسرؓ کی اقتداء کی دعوت دیتے ہیں، حضرت زبیرؓ ، ابوعبیدۃ بن الجراحؓ ، معاذ بن جبلؓ ، عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ صحابہ کرام کے نام لے لیکر انہیں واجب التکریم اور قابلِ اقتداء فرماتے ہیں، اویسؒ قرنی کے آنے کی خبر اور ان سے استغفار کرانے کی تعلیم دیتے ہیں، مجدّدین امّت کا ہر صدی پر آنا، ابدال کا ملکِ شام میں پیدا ہونا، اور ان کا مستجاب الدعوات ہونا وغیرہ وغیرہ مفصل بیان فرماتے ہیں۔لیکن ایک حدیث میں بھی یہ بیان نہیں فرماتے کہ ہمارے بعد فلاں نبی پیدا ہوگا، تم اس پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت کرنا، حالانکہ ایک رؤف و رحیم نبی کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ آنے والے نبی کے مفصل حالات سے اپنی امّت کو خوب واقف کرادے، اس کا نام، مقام، پیدائش، تاریخ، حلیہ، والدین کا نام وغیرہ بتلادے، تاکہ ان کو آنے والے نبی کی پہچان میں کوئی اشتباہ باقی نہ رہے۔‘‘ (ختم نبوت کامل از مفتی محمد شفیع حصہ دوم ص 296)
مفتی صاحب کوسیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ اعتراض کرتے وقت لحظہ بھر کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ رسول اللہ ﷺ کا نام، مقام، پیدائش، تاریخ، حلیہ اور والدین کا نام بھی پچھلی کتابوں میں بیان نہیں ہوا ۔تو کیا اس بناء پر یہودونصاریٰ کا آپؐ کو نہ ماننا حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار!
تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے موعود کی علامات اور پیشگوئیوں کے متعلق یہودونصاریٰ اور غیر احمدی مسلمانوں میں نہ صرف یکساں خیالات پائے جاتے ہیں بلکہ ان کے ظاہری طور پر پورا ہونے کا بھی یکساں عقیدہ رکھتے ہیں۔ایسی چند علامات اور پیشگوئیوں کا ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے۔
ایک نبی کے زندہ آسمان پر جانے اور واپس آنے کا عقیدہ
یہود و نصاریٰ کا عقیدہ  ہے کہ ایلیاہ نبی جو ایک آتشی رتھ میں بیٹھ کر زندہ جسم سمیت آسمان کی طرف چلے گئے تھے ( 2سلاطین باب2 آیت11)موعود مسیح کے آنے سے پہلے زمین پر واپس آئیں گے (ملاکی باب 4آیت 5)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنا دعویٰ پیش کیا تو یہودیوں نے یہ اعتراض کیا کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیاہ کاواپس آنا لازمی ہے (متی باب17 آیت 10) ۔ غیر احمدی علماء کا  بھی یہ عقیدہ ہے کہ مسیح علیہ السلام ، جو زندہ جسم سمیت آسمان پر تشریف لے جاچکے ہیں، کے آسمان سے نزول سے پہلے امام مہدی ظاہر ہوچکے ہوں گے۔
مسیؑح اور مہدی ؑ کا ایک مخصوص شہر سے نکلنے کا عقیدہ
یہود کا عقیدہ ہے کہ مسیح  بیت لحم سے ظاہر ہوگا۔چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گلیل سے آنے کی بناء پر ان کا انکار کردیا گیا۔’’ ’’پر بعضوں نے کہا کیا مسیح گلیل سے آتا ہے۔ کیا کتابوں میں یہ بات نہیں کہ مسیح داؤد کی نسل سے اور بیت لحم کی بستی سے جہاں داؤد تھا آتا ہے۔سو لوگوں میں اس کی بابت اختلاف ہوا‘‘ (یوحنّا باب 7 آیت 42)۔ اسی طرح مسلمان علماء کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی مکّہ سے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے مشرق سے ظہور پذیر ہوں گے۔ لہٰذا ایسا مدعی مہدویت و مسیحیت جو ان مخصوص شہروںکے علاوہ کسی دوسرے شہر سے ظاہر ہو وہ ان علماء کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔
دورِ مسیؑح کی احادیث اور بائیبل میں یکساں علامات
’’اُس کے سانس سے شریر مرے گا‘‘(یسعیاہ باب 11 آیت۔4)  ’’اس وقت بھیڑیا بھیڑ کے ساتھ رہے گا اور چیتا بچے کے ساتھ بیٹھے گا اور بچھڑا اور شیر کا بچہ اور پالتو بیل مل جُل کر رہیں گے اور ایک ننھا بچہ ان کی رہنمائی کرے گا۔ گائے اور ریچھنی مل کے چریں گی اور ان کے بچے ملے جلے رہیں گے اور شیر مویشی کی طرح گھاس کھائے گا۔ ایک شیرخوار بچہ سانپ کے بِل کے پاس کھیلے گا اور وہ بچہ جس کا دودھ چھڑایا گیا ہوگا کالے سانپ پر ہاتھ ڈالے گا۔وہ میرے مقدس پہاڑ پر کسی کو دکھ نہ دیں گے نہ نقصان پہنچائیں گے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے زمین خدا کے عرفان سے معمور ہوگی۔(یسعیاہ باب 11 آیات 6-9) ’’بھیڑیا اور بھیڑ ایک ساتھ چریں گے اور شیر ببر بیل کی مانند گھاس کھائے گا۔ سانپ کی خوراک خاک ہوگی۔ وہ میرے سارے مقدس پہاڑ پر دکھ نہ دیں گے اور ہلاک نہ کریں گے، خداوند فرماتا ہے۔‘‘ (یسعیاہ باب 65آیت 25) ’’اسرائیل کے باقی لوگ بدکاریاں نہیں کریں گے اور جھوٹ نہیں بولیں گے اور ان کے منہ میں دغا دینے والی زبان نہیں پائی جائے گی۔‘‘ (صفنیاہ ۔ 3:13)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سانس سے کافر مریں گے‘‘(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجّال) ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ ؑ میری امت میں حکم عدل اور منصف امام ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے ، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ ختم کردیں گے، صدقہ ترک کردیں گے، اونٹ بکری پر زکوٰۃ نہ ہوگی، لوگوں کے دلوں سے کینہ اور حسد جاتا رہے گا، ہر قسم کے زہریلے جانور کا زہر ختم ہوجائے گا یہاں تک کہ اگر بچہ سانپ کے منہ میں ہاتھ ڈالے گا تو اسے کوئی نقصان نہ ہوگا اور ایک چھوٹی بچی شیر کو بھگادے گی، بکریوں میں بھیڑیا اِس طرح رہے گا جس طرح ان کا محافظ کتا رہتا ہے، تمام زمین سلامتی سے یوں بھر جائے گی جس طرح برتن پانی سے بھر جاتا ہے۔ تمام لوگوں کا ایک کلمہ ہوگا پس اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں ہوگی، دنیا سے لڑائی اُٹھ جائے گی۔‘‘ (ابن ماجہ۔ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجّال و خروج عیسیٰ ابن مریم و خروج یاجوج وماجوج)
بشارت کے لئے مفصل اور بالکل واضح ہونا ضروری نہیں
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قبل علماء اسلام کا یہ عقیدہ تھا کہ کسی سچے نبی کی صداقت کے لئے بشارت کا ہونا یا مفصل اور واضح ہونا ضروری نہیں۔لیکن  حضورؑ کے ظہور کے بعد علماء نے پینترا بدلا اور ظہورِ مسیؑح و مہدیؑ کی پیشینگوئیوں کو مفصل، واضح اور ظاہری طور پر پورا ہونے پر اصرار کرنا شروع کردیا اور ایسا نہ ہونے کی صورت کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے انکار کا بہانہ بنالیا۔
’’ اکثر لوگوں کے رسالوں میں حضرت خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت یہ اعتراض لکھا دیکھا ہے کہ حضرت کا ذکر اگلے انبیاؤں نے نہیں کیا۔ سو پہلے میں پوچھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ کا ذکر کس کتاب میں ہے جو اُن سے پہلے کی ہو۔ آپ ہی لوگوں کے اظہار سے ثابت ہے کہ موسیٰ سے پہلے کی کوئی کتاب دنیا میں نہیں ہے۔ پھر یہ کہتا ہوں کہ دوسرے نبی کی نبوت کے ثبوت کے لیے پہلے نبی کا کہہ جانا کس برہان عقلی کی رو سے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کی ضرورت کی دلیل ہو تو بیان کیجئے۔ بلکہ برہان تطبیق اس امکان کو باطل ٹھہراتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں تسلسل لازم آتا ہے۔ بعد اس کے میں کہتا ہوں کہ پہلے نبی کو دوسرے نبی کی خبر دینا کس طرح سے چاہئے۔آیا اس طرح کہ تمام خصوصیات دوسرے نبی کی بیان کرے جس طرح قبالجات وغیرہ اور چہرہ نویسی میں لوگوں کے لکھا جاتا ہے یا اس طرح کہ فہمیدہ آدمی اپنی الف اور عادت سے کنارے ہوکر جب غور کرے تو مطابق پاوے۔ پس اگر پہلی طرح کا خبر دینا مراد ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ وغیرہ انبیاء کے لیے ایسی خبریں اگر کہیں  سےنکلتی ہوں تو ہمیں بتادیجئے۔ اور اگر دوسری طرح کی خبر مراد ہے تو ہم سے لیجئے۔‘‘ (کتاب الاستفسار۔ تالیف سیّد آل حسن مُہانی۔ صفحہ۔323)
’’ اگر کوئی سابقہ پیغمبر آنے والے نبی کے متعلق کوئی خبر اور پیشینگوئی کر بھی دے تو اس میں آنے والے نبی کے جملہ عادات و شمائل بیان نہیں کرتا تاکہ خواص و عوام کو کوئی اشتباہ باقی نہ رہے اور علامی مذکورہ کی بناء پر سب لوگ اس کو پہچان لیں۔ بلکہ اگر وہ یہ دعویٰ کرے کہ میں وہی نبی ہوں جس کی نبی سابق نے خبر دی اور وہ خود بھی اپنے ہم عصر یا بعد میں آنے والے نبی کی پیشینگوئی کرے تو عوام کا تو کیا ذکر خواص بھی اس کو جلدی سے نہیں پہچانتے۔‘‘ (ازالۃ الاوہام جلد دوم صفحہ۔185۔تالیف مولانا رحمت اللہ کیرانوی، اردو ترجمہ و تقدیم شرح و تحقیق مولانا ڈاکٹر محمد اسماعیل عارفی)
نشان کا مطالبہ اور ظاہر ہونے پر انکار
جیسا کہ ابتداء میں لکھا جاچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منکرین و مخالفین انبیاء علیہم السلام کی ایک نشانی یہ بھی بتائی ہے کہ پہلے تو وہ نبی سے اس کی صداقت کا نشان طلب کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ وہ نشان ظاہر فرمادیتا ہے تو وہی لوگ جو اس نشان کا مطالبہ کررہے ہوتے ہیں، اس کا انکار کردیتے ہیں۔ کسوف و خسف اور چودھویں صدی میں  حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور  دو ایسی  ہی مشہور و معروف  اور زبان زد عام علامات تھیں جن کا تعلق حضرت امام مہدی علیہ السلام سے تھا ۔لیکن ان کے ظاہر ہونے پر ان کا انکار کردیا گیا۔
کسوف و خسوف:
رمضان میں  ایک ہی ماہ میں سورج اور چاند کو گرہن لگنا حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خاص نشانیوں اور علامات میں سے گنا جاتا تھا۔ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے بعد جب تک یہ نشان ظاہر نہیں ہوا تھا تب تک لوگ ان سے اس نشان کے دکھانے کا مطالبہ کیا کرتے تھے لیکن جب 1894 ؁ء میں زمین کے مشرقی کرّہ میں اور   1895 ؁ء میں مغربی کرّہ میں یہ نشان ظاہر ہوگیا تو منکرین و مخالفین انبیاء علیہم السلام کی سنّت کے مطابق مخالفینِ احمدیت نے اس علامت پر مبنی روایت کو حدیث ماننے سے ہی انکار کردیا اور اسے حضرت امام باقر ؒ کا ایک غیر مستند قول کہنا شروع کردیا حالانکہ اس روایت کو قدیم اور جدید علماء نے اپنی کتب میں مستند کہہ کر ذکر کیا ہے۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام، جن میں یہ روایت مستند کہہ کر درج  کی گئی ہے، یہاں لکھے جارہے ہیں: الفتاوی الحدیثیہ   ۔ القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر از علامہ ابن حجر الہیثمی المکی   ۔ الحاوی للفتاوی، العرف الوردی فی اخبار المہدی از علامہ جلال الدین السیوطی  ۔ المرقاۃ المفاتیح شرح المشکاۃ المصابیح از ملا علی القاری  ۔ الفروع من الجامع الکافی از یعقوب الکلینی   ۔  بحار الانوار  از محمد باقر  مجلسی ۔ اکمال الدین و اتمام النعمۃ از ابی جعفر القمی الشیخ الصدوق   ۔ مکتوبات امام ربّانی مجدد الف ثانیؒ   ۔ البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان از علی بن حسام الدین المتقی الھندی   ۔ الاشاعۃ لاشراط الساعۃ از علامہ البرزنجی   ۔ قیامت نامہ از شاہ رفیع الدین دہلویؒ   ۔حجج الکرامہ فی آثار القیامۃ از نواب صدیق حسن خان بھوپالی   ۔ الامام المھدی از بدر عالم میرٹھی  ۔ اسلام میں امام مہدی کا تصور از ظفر اقبال ۔ علامات قیامت سے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیاں ۔ ناشر ختم نبوت اکیڈمی  لندن
چودھویں صدی میں امام مہدی کا ظہور
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظہور سے پہلے گویا بچے بچے کی زبان پر تھا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام چودھویں صدی میں ظاہر ہوں گے۔ جب  حضور ؑ نے عین وقت پر اعلان کیا کہ میں ہی وہ امام مہدی ہوں جس کے چودھویں صدی میں آنے کی خبر دی گئی تھی تو مکفرین نے حسب عادت اس بات کو حدیث ماننے سے ہی انکار کردیا۔حالانکہ متعدد قدیم و جدید علماء نے لکھا ہے کہ حدیث ’’الآیات بعد المائتین‘‘ یعنی  قیامت کی نشانیاں دوسوسال کے بعد ظاہر ہوں گی، کا مطلب نبی اکرم ﷺ کے زمانہ سے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد کے دو سو سال مراد ہیں۔
’’ اجتماع الناس علی المھدی سنۃ أربع و مائتین أی بعد الألف، ھکذا وردت فی الأثر‘‘(القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر۔ابن حجر الہیثمی صفحہ59) لوگوں کا مہدی کے بارے میں اس بات پر اجماع ہے کہ وہ دوسو چار میں یعنی ہزار سال کے دوسوچار برس بعد ظاہر ہوں گے آثار میں اسی طرح آیا ہے۔
’’اجماع الناس علی المھدی سنۃ اربع و مائتین۔ وھذہ الآثار تشعر بتأخرہ الی بعد الألف والمائتین (البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان ۔ علی بن حسام الدین المتقی الہندی)            لوگوں کا ظہور مہدی کے بارے میں سن دو سو چار پر اجماع ہے۔اور یہ آثار ایک ہزار دوسو کے بعد ظاہر ہوں گے۔
’’ علمنی ربی جل جلالہ ان القیمۃ قد اقتربت والمھدی تھیأ للخروج‘‘ (شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ۔ تفہیمات الٰہیۃ ۔ جلد ثانی صفحہ۔133)
مجھے میرے رب جل جلالہ نے علم دیا ہے کہ قیامت بالکل قریب ہے اور مہدی خروج کے لئے تیار ہے۔
’’اس آخری دور میں عیسائیوں کی کثرت سے کسی شخص کو شبہ نہ ہونا چاہئے، کیونکہ ہمارے سچّے نبی ﷺ نے ہم کو بڑی تفصیل کے ساتھ یقینی طور پر اطلاع دی ہے کہ مہدی رضی اللہ عنہ کے زمانے کے قریب اس قوم کی بڑی کثرت ہوگی، اور یہ وقت بالکل قریب ہے، انشاء اللہ عنقریب امام موصوف کا ظہور ہونیوالا ہے اور حق غالب ہونے والا ہے اور دین تمام اللہ ہی کے لئے مخصوص ہوجانے والا ہے۔ اللہ ہم کو اپنے دین کے مددگاروں میں شامل فرمائے۔‘‘ (علامہ رحمت اللہ کیرانوی۔ اظہار الحق۔ بائیبل سے قرآن تک۔جلد سوم باب ششم  صفحہ 240-)
’’آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا  اَلآیات بعد المائتین کہ علامات قیامت دوسوسال بعد شروع ہوں گی۔ محدثین فرماتے ہیں کہ ایک ہزار کے دو سو سال بعد مراد ہے۔‘‘ (محمد امین صفدر اوکاڑوی۔تجلیات صفدر جلد۔2 صفحہ۔47)
ظہورِ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں کشوف
سیّدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بہت سے اہل کشف و الہام لوگوں نے آپ علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں رؤیا و کشوف دیکھے ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوکر اس بات پر اطلاع پائی ہے کہ الامام المہدی کا ظہور ہوچکا ہے ۔ ذیل میں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور کے علماء کی چند روایات پیش کی جارہی ہیں جو حضور علیہ السلام کے اس دعویٰ کی صداقت پر شاہد ہیں۔
’’علاوہ حضرت خلیل پاشا صاحب مہاجر مکی کے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے مکّہ معظمہ میں حضرت والا نے ایک اور بزرگ کی بھی زیارت کی ہے جن کا اسم شریف عبدالوہاب بغدادی تھا۔ وہ بہ تصدیق حضرت حاجی صاحب قدس سرہ العزیز بڑے صاحب کشف تھے۔ ایک بار اپنا کشف حاجی صاحب سرہ العزیز کی مجلس شریف میں بیان فرمایا کہ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ اس وقت مالکی مصلیٰ پر حضرت امام مہدی علیہ السلام نماز تہجد پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے وہاں جا کر دیکھا تو واقعی حضرت امام وہاں نماز پڑھ رہے تھے تو پھر میں نے ان سے بیعت کی۔ جب بغدادی صاحب یہ بیان کرکے مجلس سے چلے گئے تو حضرت حاجی صاحبؒ نے حاضرین سے فرمایا کہ یہ بڑے صاحب کشف ہیں۔ یہ سُن کر حضرت والا (اشرف علی تھانوی) اُٹھے اور جا کر راستہ میں ان سے مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ حضرت آپ مجھے حضرت امام کی طرف سے بیعت فرمالیں کیونکہ نہ معلوم ظہور کے وقت میں زندہ رہوں یا نہ رہوں اور اس دولت سے محروم رہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کرلیا۔‘‘ (اشرف السوانح جلد اول ص۔ 177 دارالاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ، کراچی، اگست 2008)
’’حضرت ممدوح ؒ (خلیل احمد سہارنپوری) کو کشف بہت ہوتا اور مزاج میں اتنی سادگی تھی کہ بے تکلف اپنے کشوفِ کونیہ کا اپنے لوگوں سے اظہار فرمایا کرتے تھے۔ تذکرۃ الرشید کے بعد سے چونکہ حضرت کو مجھ پر شفقت بہت بڑھ گئی اور آپ کی غایت بے تکلفی نے مجھے بھی بے تکلف بنادیا تھا اس لئے ایک مرتبہ ظہورِ مہدی کے غایتِ قرب کی بابت اپنے کشوف بیان فرمانے لگے گویا ہر لمحہ انتظار ہے اور توقع غالب ہے کہ اسی سال ظہور ہوجائے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل ص۔221 مؤلف عاشق الٰہی میرٹھی۔ ناشر مکتبۃ الشیخ بہادر آباد کراچی)
’’ امام مہدی آخرالزمان کا ذکر تھا فرمایا کہ اکثر لوگ مہدویت کا دعویٰ کرتے ہیں اور پہلے زمانہ میں بھی کیا ہے۔بعض لوگ تو بالکل جھوٹے ہوتے ہیں اور بعض مجبور و معذور ہوتے ہیں۔ سیراسماء میں یہ غلطی واقع ہوتی ہے۔خاندان چشتیہ میں سیر اسماء سے ممانعت کی جاتی ہے بلکہ شیخ کا کام اپنے مرید کو سیراسماء سے نکال دینا ہے۔ اس خاندان میں صرف تین سیریں ہیں سیر الی اللہ و سیر فی اللہ و سیر من اللہ اور دوسرے خاندان میں سیراسماء کے مراقبے تعلیم کئے جاتے ہیں۔ سیر اسم ہادی میں اکثر یہ غلطی واقع ہوتی ہے چونکہ سالک پر سیر اسم ہادی میں تجلیات اسم ہادی کی واقع ہوتی ہیں۔ سالک اپنے آپ کو گمان کرتا ہے کہ مہدی آخرالزمان میں ہی ہوں۔ فرمایا کہ ظہور امام مہدی آخرالزمان کے ہم سب لوگ شائق ہیں مگر وہ زمانہ امتحان کا ہے اول اول ان کی بیعت اہل باطن اور ابدال شام بقدر تین سو تیرہ اشخاص کے کریں گے اور اکثر لوگ منکر ہو جائیں گے۔اللہ سے ہر وقت یہ دعا مانگنا چاہئے ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃً انک انت الوہاب۔ فرمایا کہ ایک شامی جن کا نام غالبًا سید احمد تھا یہاں مکہ مکرمہ میں بہ انتظار امام مہدی آخرالزماں کہ ان کے مرشد نے ان کو قرب زمانۂ امام مہدی کی خبر دی تھی مقیم تھے اور اب ان کے پیر بھائی سید محمداسی غرض سے مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اور مجھ سے اکثر اوقات ملتے ہیں اور امام مہدی کے ظہور کے آثار و اخبار سناتے ہیں۔ سید احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ رسول مقبول ﷺ آپ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں انصرنی انصرک اور مجھ سے کنایہ کرتے ہیں کہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر ہندی کے پاس ایک تلوار ہندی ہے تم ان سے تلوار ہندی لیکر امام مہدی علیہ السلام کے معین و ناصر بنو جب انہوں نے یہ خواب بیان کیا میرے پاس دو عمدہ تلواریں تھیں حاجی عبدالحق کہ ہمارے عزیزوں سے تھے اور انگریزی سرکار میں ان کو بڑا اعزازواکرام تھا۔ان کے پاس عمدہ عمدہ تلواریں تھیں۔انہوں نے دو یا ایک تلوار عمدہ ہم کو ہدیۃً دی تھی میں نے بموجب خواب سید احمد کے بذریعہ مولوی منور علی صاحب تلوار دینا چاہا۔ بلکہ مولوی صاحب میرے پاس سے وہ تلوار اپنے حجرے میں سید احمد صاحب کو دینے کے لیے لے گئے مگر چونکہ اس زمانہ میں کچھ شوروشر ہوگیا تھا اور وہی باعث سید احمد صاحب شامی کے خروج کا ہوا لہٰذا وہ تلوار ان کو نہیں دی گئی۔ فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں بہت سے بزرگ ہیں کہ ان کو دعویٰ ہے کہ ہم مہدی آخرالزماں ہوں گے اور بعض ظہور امام کے منتظر ہیں۔منجملہ منتظرین کے سید علی بغدادی ہیں وہ اکثر ہمارے پاس آمدورفت رکھتے ہیں ان کی کشف و کرامت اہل مکہ میں مشہور ہے ان کے حساب سے امام مہدی کے ظہور میں ایک یا دوسال باقی ہیں۔ انہوں نے امام مہدی کو رکن یمانی کے پاس نماز پڑھتے بھی دیکھا ہے اور ان سے مصافحہ بھی کیا ہے۔ اس وقت امام صاحب کی عمر قریب چالیس سال کے معلوم ہوتی تھی۔ سید علی صاحب کہتے ہیں کہ میں بموجب ارشاد جناب سرور عالم ﷺ بہ انتظار امام مہدی علیہ السلام مقیم ہوں ۔واللہ اعلم بالصواب ۔‘‘ (امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق ص۔ 150, 151)
’’مولانا محمد محسن کاکوروی مشہور نعت گو کے فرزند مولانا انوار الحسن کاکوروی کا خواب درجِ ذیل ہے ۔۔۔تحریر فرماتے ہیں۔میں نے سفر حج میں بمقام مدینہ طیّبہ حضرت مولانا تھانوی مدظلہ کے متعلق ایک خواب دیکھا۔ حالانکہ اس زمانے میں مجھ کو حضرت مولانا سے کوئی خاص عقیدت بھی نہ تھی۔ البتہ ایک بڑا عالم سمجھتا تھا۔ اور میرا خاندان بھی علمائے اہل حق کا کچھ زیادہ معتقد نہ تھا ۔غرض حضرت مولانا کا مجھ کو مدینہ طیّبہ میں کوئی بعید سے بعید بھی خیال نہ تھا کہ ایک شب خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضور پرنور ﷺ ایک چارپائی پر بیمار پڑے ہوئے ہیں اور حضرت مولانا تھانوی تیمارداری فرمارہے ہیں اور ایک بزرگ دور بیٹھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جن کے متعلق خواب ہی خواب میں معلوم ہوا کہ یہ طبیب ہیں۔۔۔آنکھ کھلنے پر فورًا میرے ذہن میں یہ تعبیر آئی کہ حضورؐ تو کیا بیمار ہیں حضورؐ کی امت بیمار ہے اور حضرت مولانا اس کی تیمارداری یعنی اصلاح فرمارہے ہیں۔لیکن وہ بزرگ طبیب جو دور بیٹھے نظر آرہے تھے وہ سمجھ میں نہ آئے کہ کون تھے۔ واپس ہندوستان پر میں نے حضرت مولانا کی خدمت میں یہ خواب لکھ کر بھیجا اور جتنی تعبیر میری سمجھ میں آئی تھی وہ بھی لکھ دی اور یہ بھی لکھ دیا کہ میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ وہ بزرگ طبیب کون تھے جو دور بیٹھے نظر آرہے تھے حضرت مولانا نے تحریر فرمایا کہ وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں اور وہ چونکہ ابھی زمانًا بعید ہیں اس لیے خواب میں مکانًا بعیددکھائی دئیے۔‘‘ (بیس بڑے مسلمان۔صفحہ 322)
کیا امام مہدی کا ذکر قرآن مجید میں ہے؟
بہت سے لوگ یہ اعتراض اٹھانے لگے ہیں کہ امام مہدی کاذکر قرآن میں نہیں ہے اس لئے ہمیں کسی امام مہدی کے آنے کا عقیدہ نہیں رکھنا چاہئے۔ یہ غلط فہمی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ امام مہدی کو انبیاء سے الگ ایک شخصیت سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم پر تدبر سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو ہی اللہ تعالیٰ امام اور امام مہدی کے نام سے پکارتا ہے۔اور انہیں منصب نبوت کے ساتھ ساتھ منصب امامت بھی عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آیت میں امام بنانے کا اعلان کیا

وَ اِذِبْتَلٰی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ط قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمِامًا ط... (البقرہ۔2 : 125)
اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے بعض کلمات سے آزمایا اور اس نے ان سب کو پورا کردیا تو اس نے کہا میں یقینًا تجھے لوگوں کیلئے ایک عظیم امام بنانے والا ہوں...
اسی طرح مندرجہ ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ حضرت لوط، حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کے ساتھ ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے انبیائے بنی اسرائیل کو امام مہدی کہہ کر پکارتا ہے
وَ جَعَلْنٰھُمْ أَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ۔۔۔(الانبیاء۔21 : 74)  اور ہم نے انہیں ایسے امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے۔
وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ أئِمَّۃً یَھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا۔۔۔(السجدۃ۔32: 25)   اور ہم نے ان میں ایسے امام بنائے جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے





امام مہدی ؑ اور مسیؑح موعود ایک ہی وجود ہیں!
امام مہدی ؑ اور مسیؑح موعود کے دونوں القاب روحانی کے بارہ میں وارد الگ الگ احادیث کی بناء پر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی کہ امام مہدی ؑ اور مسیح موعود ؑ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ اپنے اس خیال کو تقویت دینے کے لئے عوام کے سامنے صرف ایسی احادیث پیش کی جاتی ہیں جن میں بظاہر امام مہدی ؑ اور مسیح موعود ؑ دو الگ الگ وجودوں کے طور پر معلوم ہوتے ہیں اور ایسی تمام احادیث جن میں صراحتًا مسیح موعود علیہ السلام کو ہی امام مہدی قرار دیا گیا ہے یا تو پیش نہیں کی جاتی یا انہیں ضعیف کہہ کر رد کردیا جاتا ہے۔ جیسے ایک مشہور حدیث جوصحاح ستّہ کی کتاب ابن ماجہ میں ہے حالانکہ اس کے راوی محمد بن خالد الجندی سے امام شافعیؒ نے روایت لی ہے اور ابن معینؒ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ ابن معینؒ کے متعلق اسماء الرجال کی مشہور کتاب تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ جس حدیث کو ابن معینؒ نہیں جانتے وہ حدیث ہی نہیں۔ علامہ القرطبی اپنی کتاب ’’التذکرۃ باحوال الموتی والآخرۃ‘‘ میں اس حدیث ’’لا المہدی الا عیسیٰ ‘‘ کے راوی محمد بن خالد الجندی کے متعلق چند لوگوں کا یہ قول نقل کرکے کہ وہ مجہول تھا، لکھتے ہیں کہ اسے یحیی بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اور پھر اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ اس قول کا مطلب یہ ہو کہ کامل اور معصوم مہدی عیسیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ اسی کتاب کے صفحہ ۔1304میں  علامہ القرطبی یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ کے مجدد کے طور پر نازل ہوں گے۔حضرت امام مہدی ؑکے متعلق بھی یہی عقیدہ ہے کہ وہ آخری زمانہ کے مجدد ہوں گے تو پھر بیک وقت دو مجدد کیسے ہوسکتے ہیں!
 ایسی چند احادیث اور اقوال جن میں مسیح موعود ؑ اور امام مہدی ؑ کو ایک وجود قرار دیا گیا ہے ذیل میں پیش ہیں:
لَا الْمَھْدِی اِلّا عِیْسَی ابنُ مَرْیَمَ (ابن ماجہ۔ کتاب الفتن باب شدۃ الزمان  ۔   المستدرک للحاکم کتاب الفتن والملاحم)
عیسیٰ ابن مریم کے سوائے کوئی مہدی نہیں۔
’’ حدثنا الولید بن عتبۃ، عن زائدۃ، عن لیث، عن مجاھد قال: المھديُّ عیسی ابن مریم۔ (حاشیہ: في إسنادہ لیث، و ھو ابن أبی سُلیم۔ ولا یلزم منہ نفي المھدی الذي اسمہ محمد بن عبدللہ، فعیسی علیہ الصلاۃ والسلام آخر المھدویین۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ۔ کتاب الفتن)
مجاہد کہتے ہیں: عیسی ابن مریم مہدی ہیں۔(حاشیہ: لازم نہیں کہ اس سے اس مہدی کی نفی ہوتی ہو جس کا نام محمد بن عبداللہ ہے۔ پس عیسیٰ علیہ السلام آخری مہدی ہوں گے)
یُوشِکُ مَن عَاشَ مِنکُم اَن یَّلقیٰ عِیسیَ ابنَ مَریَمَ اِمَامًا مھدِیًّا وَّ حَکَمًا عَدلًا ۔۔۔۔۔(مسند احمد بن حنبل، جلد۔2، صفحہ۔114)
قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہوا وہ عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے گا جو کہ امام مہدی اور حکم عدل ہونگے۔
ثمّ ینزل عیسی ابن مریم مصدّقًا بمحمدٍ علی ملّتہ امامًا مھدیًّا و حکمًا عدلًا فیقتل الدجال (طب۔عبداللّٰہ بن مغفل)
پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہونگے محمدﷺ کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی ملّت پر امام مہدی حکم عدل ہونگے اور دجّال کو قتل کریں گے۔ کنزالعمال کتاب القیامۃ صفحہ141 ۔ مجمع الزوائد  از نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی جلد7 صفحہ ۔335,336 )
’’۔۔۔ ولا تقوم الساعۃ الا علی اشرار الناس، ولا مھدی الا عیسی ابن مریم۔‘‘ (ھ ۔ ک۔ عن انس) (کنز العمال کتاب القیامۃ صفحہ 118)
قیامت صرف شریر ترین لوگوں پر قائم ہوگی اور عیسیٰ ابن مریم کے سوا کوئی اور مہدی نہیں۔
’’ و روي عن ابن عباس أنہ قال: یمکث عیسی علیہ السلام في الارض أربعین سنۃ نبیًا امامًا مھدیًا۔‘‘(تفسیر السمرقندی تفسیر سورۃ النساء زیر آیت۔159)
اور ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے (یعنی رسول اللہ ﷺ نے) کہا: عیسیٰ علیہ السلام زمین میں چالیس سال رہیں گے وہ نبی امام مہدی ہوں گے
وَ قَالَ الْحَسَنُ اِنْ کَانَ مَھْدِیٌّ فَعُمَر بن عبدالعزیز و اِلَّا فَلَا مَھْدِی اِلَّا عِیْسَی ابنُ مَریَم (تاریخ الخلفاء از جلال الدین السیوطیؒ صفحہ 158)
حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مہدی ہے تو عمر بن عبدالعزیز ہے ورنہ عیسی ابن مریم کے سوا کوئی مہدی نہیں ہے۔
’’  فَأَمَّا الحدیثُ الذی رواہ ابنُ ماجہ فی سُننِہ۔۔۔فَإِنَّہُ حدیثٌ مشھورٌ بمحمدِ بنِ خالدٍ الجندیِّ الصَّنْعَانیِّ المؤذِّنِ ،شیخِ الشافعیِّ و روی عنہ غیرُ واحدٍ أیضًا، ولیس ھو بمجھولٍ کما زعمہ الحاکم بل قد روی عن ابن مَعینٍ أنَّہ وَثَّقہ۔۔۔قُلتُ: ۔۔۔ھذا الحدیثُ فیما یظھرُ فی بادی الرأیِ مُخالفٌ للأحادیثِ التی أوردناھا فی إثباتِ مھدیِّ غیرِ عیسی ابنِ مریمَ، إِمَّا قبلَ نزولِ و ھو الأظھرُ، واللہُ أعلمُ، و إِمَّا بعدَ نزولہِ، و عندَ التأمُّلِ یکونُ ھذا الحدیثُ لا ینافیھا، و یکونُ المرادُ مِن ذلک أنَّ المھدیَّ حقَّ المھدیِّ ھو عیسی ابنُ مریمَ و لا ینفی ذلک أن یکونَ غیرُہُ مھدیًّا ایضًا۔‘‘ (البدایۃ و النھایۃ۔جلد۔۱۹ -النھایۃ في الفتن والملاحم۔صفحہ۔66,67)
پس جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کی ہے۔۔۔تو وہ محمد بن خالد الجندی الصنعانی سے مشہور حدیث ہے جو مؤذن تھے اور شافعی کے استاد تھے اور ان سے ایک سے زائد لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور وہ مجہول نہیں ہیں جیسا کہ حاکم نے خیال کیا ہے بلکہ  ابن معین نے ان سے روایت کی ہے اور اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ۔۔۔یہ حدیث بظاہر ان احادیث کے مخالف نظر آتی ہے جن میں عیسی ابن مریم کے علاوہ ایک مھدی کا ذکر ہے چاہے ان کے نزول سے پہلے آچکے ہوں، جو کہ ظاہر بات ہے، اور اللہ سب سے بہتر جانتا ہے، چاہے ان کے نزول کے بعد ظاہر ہوں۔اور اس حدیث میں تامل کرنا اس کی نفی نہیں کرتا اور اس کی مراد یہ ہے کہ حقیقی مھدی تو عیسی ابن مریم ہی ہیں لیکن اس بات کی بھی نفی نہیں کی جاسکتی کہ ان کے علاوہ بھی کوئی مہدی ہو۔
’’ قال ابن أبی واطیل: وما ورد من قولہ ’’ لا مھدي إلا عیسی‘‘ فمعناہ: لا مھدي تساوي ھدایتہ ولایتہ۔۔۔قلت: و علیہ حمل بعض المتصوفۃ حدیث لا مھدي إلا عیسی أي لا یکون مھدي إلا المھدي الذي نسبتہ إلی الشریعۃ المحمدیۃ نسبۃ عیسی إلی الشریعۃ الموسویۃ في الاتباع و عدم النسخ ‘‘ (تاریخ ابن خلدون۔ الفصل الثاني و الخمسون: في أمر الفاطمي وما یذھب إلیہ الناس في شأنہ و کشف الغطاء عن ذلک)
ابن ابی واطیل کہتے ہیں کہ اس قول کہ عیسی کے سوا کوئی مہدی نہیں کا یہ معنی ہے کہ کوئی مہدی ان کے ساتھ ہدایت و ولایت میں برابر نہیں ہوسکتا۔ میں (ابن خلدون) کہتا ہوں کہ بعض صوفیاء نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ کوئی مہدی نہیں سوائے اس مہدی کے جسے شریعت محمدیہ سے اس کی پیروی کرنے اور منسوخ نہ کرنے میں وہی نسبت ہوگی جو عیسیٰ کو شریعت موسویہ سے تھی
’’ و قیل: المھدی ھو عیسی فقط۔‘‘ اور کہا جاتا ہے کہ صرف عیسیٰ ہی مہدی ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن (تفسیر قرطبی) تفسیر سورہ التوبہ زیر آیت ھوالّذی ارسل رسولہٗ)
علامہ القرطبی نے اپنی تفسیر میں اگرچہ اس محولہ بالا قول کو غیر صحیح قرار دیا ہے اور ابن ماجہ کی اس حدیث، ’’لا المہدی الا عیسیٰ ‘‘  کی صحت سے بھی انکار کیا ہے لیکن اس سے یہ بہرحال ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال اس دور میں بھی پایا جاتا تھا کہ امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔
ہندوستان کے ایک مشہور عالم دین حسین احمد مدنی صاحب بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہی امام مہدی ماننے کے بارے میں بھی اقوال پائے جاتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ ‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’امام سفارینی کا بیان ہے: قد کثرت الاقوال فی المھدی حتی قیل لا مہدی الا عیسیٰ والصواب الذی علیہ اھل الحق ان المہدی غیر عیسیٰ و انہ یخرج قبل نزول عیسیٰ علیہ السلام و قد کثرت بخروجہ الروایات حتی بلغت حد التواتر المعنوی و شاع ذٰلک بین العلماء السنۃ حتی عد من معتقداتھم (لوائح الانوارالبھیہ ص۔79-80، ج 2) حضرت مہدی کے بارے میں بہت سارے اقوال ہیں حتیٰ کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی مہدی ہیں اور صحیح بات جس پر اہل حق ہیں یہ ہے کہ مہدی کی شخصیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے الگ ہے‘‘ (صفحہ۔4)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کسر صلیب اور قتل خنزیر کریں گے
تقریبًا تمام احادیث میں مذکور ہے کہ مسیح علیہ السلام کسر صلیب اور قتل خنزیر کریں گے۔ لیکن علامہ ابن حجر الہیثمی المکی نے ایک ایسی روایت بھی نقل کی ہے جس کے مطابق کسر صلیب اور قتل خنزیر کا کام امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں ہوگا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔لیکن یہ روایت نقل کرنے کے بعد امام ابن حجر الہیثمی المکی اپنے عقیدہ کو سہارا دینے کی خاطر لکھتے ہیں کہ یہ دونوں کا ایک ہی کام کرنا  منع نہیں ہے ۔
’’یخرج المھدی حکما و عدلا فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر و یطاف بالمال، فلا یوجد أحد یقبلہ۔ ولا ینافیہ ما یأتی أن عیسی ﷺ یفعل ذلک؛ اذ لا مانع أن کلا منہما یفعلہ۔‘‘ (القول المختصر في علامات المھدی المنتظر۔صفحہ42-)
مہدی حکم عدل کے طور پر نکلیں گے، پس صلیب توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور مال تقسیم کریں گے اورکوئی اسے قبول کرنے والا نہیں پائیں گے۔ اور یہ اس کی نفی نہیں کرتا جو عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آیا ہے کہ وہ بھی یہی کریں گے۔کیونکہ یہ منع نہیں ہے کہ دونوں یہ کام کریں۔
امت کا ایک خلیفہ مال دے گا
جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ بخاری اور مسلم میں امام مہدی کے نام کاذکر نہیں ہے لیکن ان احادیث میں ایک خلیفہ کا ذکر ہے جو بھر بھر کر مال دے گا۔
عَن اَبِی سَعِیدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ مِن خُلَفَآءِکُم خَلِیفۃٌ یَحثُو المَالَ حَثیًا وَّ لَا یَعُدُّہُ عَدًّا
ابو سعیدؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے خلفاء میں سے ایک عظیم الشان خلیفہ ہوگا جو بھر بھر کر مال دے گا اور گنے گا نہیں۔
یَکُونُ فِی اٰخِرِِ اُمَّتِی خَلِیفۃٌ یَحثِی المَالَ حَثیًا وَّ لَا یَعُدُّہُ عَدًّا (مسلم ، کتاب الفتن والشراط الساعۃ)
میری امت کے آخر میں ایک عظیم الشان خلیفہ ہوگا جو بھر بھر کر مال دے گا اور گنے گا نہیں۔
بالعموم اس خلیفہ سے حضرت امام مہدی ؑ مراد لیے جاتے ہیں۔لیکن چند احادیث میں ابن مریم کے نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ بھر بھر کر مال دیں گے۔ان دونوں قسم کی احادیث سے ثابت ہوا کہ وہ خلیفہ جو بھر بھر کر مال دے گا، ابن مریم یعنی مسیح موعود ؑ کے سوا اور کوئی نہیں اور وہی مہدی ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام مال دیں گے
وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہٖ لَیُوشِکَنَّ اَن یَنزِلَ فِیکُمُ ابنَُ مَریَمَ حَکَمًا عَدلًا فَیَکسِرُ االصَّلِیبَ وَ یَقتُلُ الخِنزِیر وَ یَضَعُ الجِزیَۃ وَ یَفیضُ المَالَ حَتّٰی لَا یَقبَلَہُ (بخاری،کتاب الانبیاء، باب نزول عیسی بن مریم)
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان نازل ایک حاکم عادل کی حیثیت سے نزول کریں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے اور اس وقت مال و دولت کی اتنی کثرت ہوگی کہ اسے لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔
عَن اَبِی ھُرَیرَۃَؓ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہٖ لَیُوشِکَنَّ اَن یَّنزِلَ فِیکُم ابنُ مَریَمَ حَکَمًا مُّقسِطًا فَیَکسِرَ الصَّلِیبَ وَ یَقتُلَ الخِنزِیرَ وَ یَضَعَ الجِزیَۃَ وَ یُفِیضُ المَالَ حَتّٰی لَا یَقبَلَہُ اَحَدٌ۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے البتہ قریب ہے جب اتریں گے عیسی ابن مریم تمہارے درمیان اور انصاف سے حکم کریں گے اور صلیب کو توڑ دیں گے اور سؤر کو مارڈالیں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے اور بہت مال دیں گے یہاں تک کہ لینے والا کوئی نہ ہوگا۔
یاد رہے کہ یہاں مال سے دنیاوی مال مراد نہیں ہے بلکہ روحانی خزائن مراد ہیں جیسا کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے      اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار
اللہ تعالیٰ کے انبیاء مال دیا نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے یعنی انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب و تلقین کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں جابجا اس کی تصریح آئی ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ دنیا کی مال و دولت اور ٹھاٹھ باٹھ ان لوگوں کے لئے ہے جو رحمان خدا کا انکار کرنے والے ہوتے ہیں جبکہ متقیوں کے لئے آخرت میں عمدہ سامان ہیں۔
وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِھِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَۃٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنؤ لا۔ وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِئُوْنَ لا ۔ وَ زُخْرُفًا ط وَ اِنْ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط وَالْاٰخِرَۃُ عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُتَّقِیْنَ (الزخرف۔ 43:34-36)
اور اگر یہ احتمال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی طرح کی اُمّت بن جائیں گے تو ہم ضرور اُن کی خاطر، جو رحمان کا انکار کرتے ہیں، ان کے گھروں کی چھتوں کو چاندی کا بنادیتے اور (اسی طرح) سیڑھیوں کو بھی جن پر وہ چڑھتے ہیں۔ اور ان کے گھروں کے دروازوں کو بھی اور ان مسندوں کو بھی جن پر وہ ٹیک لگاتے ہیں۔اور ٹھاٹھ باٹھ بھی عطا کرتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ تو یقینًا محض دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور آخرت تیرے ربّ کے حضور متقیوں کے لئے ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رزق کی کشادگی انسان کو بغاوت کی طرف مائل کردیتی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی کے دور میں رزق کی کشادگی انسان کو اللہ کی اطاعت سے دور نہ ہٹائے۔یہ ناممکن ہے کہ مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ اس دور میں منسوخ ہوجائے یا انسان کی فطرت بدل جائے ۔
وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ۔۔۔ (الشوریٰ۔ 42:28)
اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے رزق کشادہ کردیتا تو وہ زمین میں ضرور باغیانہ روش اختیار کرتے ۔۔۔
انسان کی مال و دولت کے لئے ہوس کے بارے میں قرآن کریم اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ (کثرت کی خواہش نے تمہیں برباد کردیا ) کی خبر دیتا ہے جس کی تصدیق میں نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر ابن آدم کے پاس مال و دولت کی بھری ہوئی دو وادیاں بھی ہوں تو بھی وہ تیسری کی خواہش کرے گا اور انسان کا پیٹ سوائے مٹی (یعنی قبر کی مٹی)کے اور کوئی نہیں بھر سکتا۔(صحیح مسلم)۔ یعنی انسان مرتے دم تک مال و دولت کے لالچ کا شکار رہتا ہے۔تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی بے دریغ اور بغیر گنے ہوئے مال و دولت تقسیم کرے اور انسان اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ ’’کوئی اس مال کو قبول نہیں کرے گا ‘‘ سے مراد وہ روحانی و دینی خزائن ہیں جنہیں دنیا کی محبت کے باعث لوگ قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
اسی زمانہ کے متعلق صحیح بخاری باب نزول عیسیٰ ابن مریم میں حدیث وارد ہوئی ہے کہ اس وقت ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔مومن دنیاوی مال سے منہ پھیر کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ترجیح دیں گے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام اور خاص طور پر نبی اکرم ﷺ کی سنّت غریبانہ اور فقیرانہ زندگی گزارنے میں ہے جیسا کہ آپ ؐ نے فرمایا ’’الفقر فخری ‘‘ کہ فقیری میرا فخر ہے۔ جب آپؐ کے بدنِ اطہر پرکھجور کی چٹائی کے نشان دیکھ کر حضرت عمرؓ رو دئیے تو آپؐ نے فرمایا کہ میرا حال تو ایک مسافر کی مانند ہے جو دنیا میں چند روزہ قیام کے لئے آیا ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ امام مہدی ؑ اور مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں شریعت محمدیہ کا نفاذ کریں گے اور علامات ساری وہ بتائی جاتی ہیں جو قرآن و سنّت دونوں کے خلاف ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ قرآن کے مطابق ہر  دور میں منکرین و مخالفین انبیاء علیہم السلام ان پرایک ہی نوعیت کے اعتراضات کرتے  اور ان سے ایک ہی قسم کے مطالبات کرتے ہیں  اور ایک حدیث کے مطابق آخری زمانہ کے مسلمان یہودونصاریٰ کی مکمل پیروی و مشابہت اختیار کریں گے، اس کا ثبوت یہاں بھی ملتا ہے کہ مسیؑح و مہدی ؑ کے خزانہ تقسیم کرنے کو مسلمانوں نے ظاہری مال و دولت تقسیم کرنا سمجھا اور جب یہ علامت بدیہی طور پر سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں نظر نہ آئی تو مندرجہ ذیل آیت میں مذکور منکرین کی  طرح یہ کہہ کر ان کا انکار کردیا کہ مرزا صاحب نے نہ تو کوئی مال و دولت تقسیم کیا بلکہ الٹا  چندے مانگتے رہے اور نہ ہی دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کسی مینار پر نازل ہوئے۔
فَلَعَلَّکَ تَارِکٌ بَعْضَ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَ ضَآئِقٌ بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ ط اِنَّمَا اَنْتَ نَذِیْرٌ ط وَاللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ
پس کیا (کسی طرح بھی) تیرے لئے ممکن ہے کہ اس وحی میں سے جو تیری طرف کی جاتی ہے کچھ ترک کر دے، کیونکہ تیرا سینہ اِس سے سخت تنگ ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اس کے ساتھ کوئی خزانہ اتارا گیا یا اس کے ہمراہ کوئی فرشتہ آیا۔ تُو محض ایک ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔(سورۃ ھود۔11:13)
کیا امّت مسلمہ میں بیک وقت دو خلیفہ ہوسکتے ہیں؟
اس سلسلے میں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر مسیؑح و مہدی ؑ کو دوروحانی مراتب کی بجائے الگ الگ وجود مانا جائے تو پھر امّت میں بیک وقت دو خلفاء کا ظہور ماننا پڑے گا اورخلیفہ ہونے کے باعث دونوں کی بیک وقت بیعت کرنی ہوگی جو ناممکن ہے:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام خلیفہ
’’ عن أبی ہریرۃ، قال: قال رسول اللہ ﷺ ألا إن عیسی ابن مریم لیس بینی و بینہ نبي ولا رسول، إلا أنہ خلیفتي في أمتي من بعدي
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔"خوب سن لو عیسی ابن مریم کے اور میرے درمیان نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول، یاد رکھو کہ وہ میرے بعد میری امت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔
المعجم الصغیر للطبرانی ۔الجزء الاول ؛ المعجم الاوسط للطبرانی؛ مجمع البحرین فی زوائد المعجمین الحافظ نور الدین الہیثمی۔الجزء السادس؛  نزول عیسی ابن مریم آخر الزمان از  علامہ جلال الدین  السیوطیؒ ؛    التصریح بما تواتر فی نزول المسیح از انور شاہ کشمیری کے علاوہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلویؒ نے  بھی اپنی کتاب ’’قیامت نامہ‘‘ میں اسی حوالے سے اس حدیث کو درج فرمایا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کی اس فارسی کتاب کے مترجم  حافظ محمد اسلم زاہد صاحب، فاضل وفاق المدارس پاکستان و جامعہ اشرفیہ لاہور، نے ’’آثار قیامت اور فتنہ دجال کی حقیقت‘‘ کے نام سے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے  اس کے صفحہ144,145پروضاحت کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نبی اکرم ﷺ کے خلیفہ کی حیثیت سے آنے سے ختم نبوت کو فرق نہیں پڑتا۔
’’ فی الحدیث أن النبی ﷺ قال ان عیسی نازل فیکم و ھو خلیفتی علیکم‘‘ (خریدۃ العجائب و فیدۃ الغرائب۔علامہ سراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی۔ باب ذکر نزول عیسی ابن مریم علیہما السلام۔ صفحہ۔ 133)
حدیث میں آیا ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عیسی تم میں نازل ہوں گے اور وہ تمہارے اوپر میرے خلیفہ ہوں گے۔
امام مہدی بھی خلیفہ
’’ثوبانؓ جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جب تم دیکھو کہ سیاہ جھنڈے خراسان کی جانب سے آرہے ہیں تو ان میں شامل ہوجانا اگرچہ برف کے گھٹنوں کے بل ہی کیوں نہ جانا پڑے کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ مہدی ہوگا (احمد و بیہقی) ‘‘ (الامام المہدی از بدر عالم میرٹھی۔ استاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند ۔ صفحہ۔ 31, 32)

ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرے کو قتل کردو!
عن ابی سعید الخُدْرِیِّ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا الآخر منھما‘‘۔
جب دو خلفاء کی بیعت کے لئے کہا جائے تو دوسرے کو قتل کردو۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب اذا بویع لخلیفتین)
اِن احادیث کی رو سے ہمارے سامنے دو نہایت متضاد باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ امّت میں بیک وقت دو خلیفہ ہوں گے اور دونوں کی بیعت لازمی قرار دی گئی ہے۔جبکہ دوسری  حدیث کے مطابق بیک وقت دو خلفاء کی بیعت کرنے کی بجائے دوسرے خلیفہ کو قتل کردینا چاہئے۔
ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بابویہ القمی معروف بہ الشیخ الصدوق المتوفی ۳۸۱؁ھ  ’’ ہر زمانہ میں ایک ہی خلیفہ کی ضرورت‘‘ کے زیرعنوان لکھتے ہیں:
’’ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ’’خلیفہ‘‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک ہی خلیفہ ہوگا اور اس سے ان لوگوں کا یہ قول باطل ثابت ہوجاتا ہے جو بات کرتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں کئی اماموں کا ہونا ممکن ہے۔جبکہ اللہ نے صرف ایک ہی پر اکتفا کیا ہے۔اور اگر ان لوگوں کی وہ دلیل صحیح ہوتی جو چند اماموں  کے ہونے پر انہوں نے قائم کی ہے تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ایک پر اکتفا نہ کرتا اور ہمارا دعویٰ ان کے دعویٰ کے مقابلہ میں ہے اور قرآن ہمارے دعویٰ کو ترجیح دے رہا ہے نہ کہ ان کے قول کو۔ اور اگر دو کلام ایک دوسرے کے مد مقابل میں ہوں اور قرآن ان میں سے ایک کو ترجیح دے تو ترجیح پانے والا قول ہی قابل تسلیم ہے۔‘‘ (کمال الدین و تمام النعمہ، جلد اوّل صفحہ ۲۷۔ اشاعت دوم۔سن اشاعت جولائی ۲۰۰۰ء۔ناشر الکساء پبلشرز آر ۱۵۹ سیکٹر ۵ بی ۲ نارتھ کراچی)
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ’’کیا ایک سے زیادہ خلیفہ ہوسکتے ہیں؟‘‘ کے زیرعنوان لکھتے ہیں
’’جمہور علماء کا مؤقف یہ ہے کہ پوری دنیا میں خلیفہ ایک ہی ہونا چاہئے اور مختلف ملکوں میں الگ الگ خلیفہ نہیں ہوسکتے۔۔۔دوسرے دلائل کے علاوہ ان حضرات کا استدلال اُس حدیث سے بھی ہے جس میں حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ: ’’سیکون خلفاء فیکثرون‘‘۔ قالوا: فما تأمرنا یا رسول اللّٰہ؟ قال: فوا بیعۃ الأول فالأول۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل حدیث ۳۴۵۵) ’’خلفاء ہونگے اور بہت سے ہونگے‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا کہ: ’’یا رسول اللہ! پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’ جس سے پہلے بیعت کی ہو، اُس سے وفادار رہو، پھر اُس کے بعد جس سے پہلے بیعت کی ہو، اُس سے۔‘‘ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ کی بیعت کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس لئے ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہوسکتے۔‘‘
اس کے بعد مفتی محمد تقی عثمانی صاحب  چند علماء کے، اس امر کے حق میں کہ مسلم امہ میں بیک وقت ایک سے زیادہ امام ہوسکتے ہیں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ان اقوال کے باوجود جمہور علماء کا مؤقف یہی ہے کہ ایک وقت میں امام متعدد نہیں ہوسکتے۔ لیکن غور کرنے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام جس عالمگیر دعوت کا داعی ہے، اور اُس میں جس طرح پوری امت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کا اہتمام فرمایا گیا ہے، اس کا تقاضا وہی ہے جو جمہور فقہاء کا مؤقف ہے، یعنی پورے عالم اسلام کا ایک ہی خلیفہ یا امام ہو اور جہاں تک ممالک کے درمیان فاصلوں کا تعلق ہے، خلافت راشدہ کے دور میں بھی اسلام تقریبًا ایک تہائی دنیا تک پہنچ چکا تھا، اور بعد میں آدھی دنیا اُس کے زیراثر آگئی تھی، اس کے باوجود ایک امام کے تحت کام چلتا رہا اور ہمارے دور میں تو مواصلات کی ترقی نے اس کو کوئی قابل لحاظ مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ اس لئے ایک مثالی اسلامی ریاست کی اصل کوشش یہی ہونی چاہئے کہ پوری دنیا میں ایک ہی امام ہو۔‘‘ (اسلام اور سیاسی نظریات۔صفحہ 242تا 246۔ طبع جدید نومبر ۲۰۱۰۔ناشر مکتبہ معارف القرآن کراچی ۱۴)
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس وقت کے مسلمان بیک وقت دو خلفاء کی بیعت کرکےفرمانِ رسول ﷺ کو ترک کردیں گے  یا دونوں خلفاء میں سے بعد میں آنے والے کو، جو کہ حضرت عیسیٰ ؑ ہوں گے اور ظہورِامام  مہدی ؑ کے بعد نازل ہوں گے،قتل کردیں گے؟
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مقام و مرتبہ

سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اپنا مقام و مرتبہ بیان فرماتے ہیں توبعض علماء کے قلم فتاویٰ کفر جاری کرنے کے لئے فورًا حرکت میں آجاتے ہیں۔ لیکن یہ علماء خود امام مہدی ؑ کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام مہدی ؑ تو خلفاءِ راشدینؓ بلکہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہوں گے۔
’’عن ابن سیرین قیل لہ المھدی خیر او ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنھما؟ قال ھو اخیر منھما و یعدل بنبی‘‘ (کتاب الفتن: ص ۲۵۰) علامہ ابن سیرینؒ سے پوچھا گیا کہ امام مہدیؓ زیادہ بہتر ہیں یا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما؟ تو ابنِ سیرین نے کہا کہ امام مہدیؓ ان دونوں سے زیادہ بہتر ہیں اور نبی کے برابر ہیں۔ اس قسم کی دو روایتیں علامہ سیوطیؒ نے بھی الحاوی للفتاوی ج ۲ ص ۹۲ پر نقل فرمائی ہیں جن میں سے ایک روایت تو ضمرہ کی سند سے ابن سیرین سے یوں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: (اذا کان ذلک فاجلسوا فی بیوتکم حتی تسمعوا علی الناس بخیر من ابی بکر و عمر، قیل افیاتی خیر من ابی بکر و عمر؟ قد کان یفضل علی بعض) (الحاوی للفتاوی: ج ۲ ص ۲۹) ۔ جب فتنوں کا زمانہ آجائے تو تم اپنے گھروں میں بیٹھ جانا یہاں تک کہ تم حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے زیادہ بہتر آدمی کے آنے کی خبر سن لو (پھر باہر نکلنا )لوگوں نے پوچھا کہ کیا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے بھی افضل کوئی شخص آئے گا؟ فرمایا کہ وہ تو بعض انبیاء پر فضیلت رکھتا ہوگا۔۔۔ علامہ سیوطیؒ نے دوسری روایت مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کی ہے جس میں ابن سیرین کا قول یوں نقل کیا گیا ہے: (یکون فی ھذہ الامۃ خلیفۃ لا یفضل علیہ ابوبکر ولا عمر) (الحاوی : ج2 ص93) اس امت کا ایک خلیفہ ہوگا جس پرحضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کو بھی فضیلت نہ ہوگی۔ ‘ ‘ (اسلام میں امام مہدی رضی اللہ عنہ کا تصور ۔ ص 51, 52)
’’ اور یہ بھی امر ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت، خلافتِ راشدہ سے افضل انواع میں سے ہوگی۔‘‘ (منصبِ امامت صفحہ 118، از شاہ اسماعیل شہیدؒ )
’’ملا علی قاریؒ نے اپنی کتاب ’’المشرب الوردی فی المہدی‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ: ’’امام مہدیؓ کی افضلیت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ حضورﷺ نے ان کو ’’خلیفۃ اللہ‘‘ فرمایا ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ ’’خلیفہ رسول اللہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ (الاشاعہ ص238)‘‘ اسلام میں امام مہدی کا تصور ص۔54)

امام مہدی ؑ کا ذکر انبیائے سابقہ کی کتب میں:
’’اخرج عن کعب یقول: انی اجد المہدی مکتوبا فی اسفار الانبیاء‘‘
(العرف الوردی فی اخبار المہدی از علامہ جلال الدین السیوطی۔ صفحہ ۱۱۷)
کعب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے المہدی کا ذکر انبیاء کی کتابوں میں لکھا پایا۔
امام مہدی کا منکر کافر ہے
نبی اکرم ﷺ نے اپنے خلفاء الراشدین اور کچھ صحابہؓ کو بھی مہدی کہہ کر پکارا ہے (تفصیل آگے آرہی ہے) جبکہ اموی اور عباسی دور میں دیگر لوگوں کو بھی مہدی کہا جاتا تھا۔لیکن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے الامام المہدی اور خلفاء الراشدین و دیگر صحابہؓ میں یہ فرق ہے کہ الامام المہدی ؑ کے متعلق تمام مسلمانوں کا ایک عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر فائز کئے جائیں گے اور وہ لوگوں کی طرف سے منتخب نہیں کئے جائیں گے۔امام مہدی ؑ کے متعلق مسلمانوں کا دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ ان پر ایمان لانا لازمی ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں جو صرف ایک نبی کے متعلق ہی کہی جاسکتی ہیں۔ ہمارے ارکانِ ایمان میں اللہ، ملائکہ، کتب، انبیاء اور یومِ آخرت پر ایمان لانا تو قرآنِ کریم میں مذکور ہے لیکن کسی غیر نبی امام مہدی پر ایمان لانا کہیں مذکور نہیں۔چنانچہ ثابت ہوا کہ دورِ آخر میں ظاہر ہونے والے الامام المہدی کوئی اور نہیں بلکہ ایک نبی ہیں جسے ایک حدیث میں ’’خلیفۃ اللہ ‘‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے خروجِ مہدی کا انکار کیا، اس نے اس وحی کے ساتھ کفر کیا جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی اور جس نے نزولِ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا انکار کیا اس نے کفر کیا اور جس نے خروجِ دجّال کا انکار کیا اس نے کفر کیا۔۔۔(فصل الخطاب و الروض الانف ص160 ج 1)‘‘ (علاماتِ قیامت اور نزول مسیؑح۔ صفحہ۔ 93)
’’امام سفارینی کا بیان ہے : قد کثرت الاقوال فی المہدی حتی قیل لا مہدی الا عیسیٰ والصواب الذی علیہ اھل الحق ان المہدی غیر عیسیٰ و انہ یخرج قبل نزول عیسیٰ علیہ السلام و قد کثرت بخروجہ الروایات حتی بلغت حد التواتر المعنوی و شاع ذٰلک بین علماء السنۃ حتی عد من معتقداتھم (لوائح الانوار البھیہ ج۔3 ص 79-80) حضرت مہدی کے بارے میں بہت سارے اقوال ہیں حتیٰ کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی مہدی ہیں۔ اور صحیح بات جس پر اہل حق ہیں یہ ہے کہ مہدی کی شخصیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے الگ ہے۔ ان کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے پہلے ہوگا۔ ظہور مہدی سے متعلق روایات اتنی زیادہ ہیں کہ تواتر معنوی کی حد کو پہنچ گئی ہیں اور علماء اہلسنت کے درمیان اس درجہ عام اور شائع ہوگئی ہیں کہ ظہور مہدی کو ماننا اہل سنت والجماعت کے عقائد میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت جابر، حذیفہ، ابوہریرہ، ابوسعید خدری اور حضرت علی رضی اللہ عنھم سے منقول روایتوں کے ذکر اور نشاندہی کے بعد لکھتے ہیں:وقد روی عن ذکر من الصحابۃ و غیر ما ذکر منھم رضی اللّٰہ عنھم بروایات متعددۃ و عن التابعین من بعدھم ما یفید مجموعہ العلم القطعی فالایمان بخوج المہدی واجب کما ھو مقرر عند اھل العلم و مدون فی عقائد اھل السنۃ والجماعۃ (ایضا ص80،ج۔2) اوپر مذکور حضرات صحابہ اور ان کے علاوہ دیگر اصحاب رسول ﷺ سے اور ان کے بعد تابعین سے اتنی روایتیں مروی ہیں کہ ان سے علم قطعی حاصل ہوجاتا ہے۔ لہذا ظہور مہدی پر ایمان لانا واجب ہے جیسا کہ یہ امر اہل علم کے نزدیک ثابت شدہ ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقائد میں مدون و مرتب ہے۔‘‘ (الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ ۔ حسین احمد مدنی صفحہ۔4-5)
دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر احمدی مسلمان علماء امام مہدی کے متعلق مخمصہ کا شکار ہیں اور اُن پر ایمان رکھنے کو ’’بحسبِ تصریحِ قرآن و حدیث ‘‘ نہیں بلکہ ’’بحسبِ تصریح علامہ سفارینی ‘‘ واجب اور ضروری سمجھنے کے باوجود اسے اسلام کے اہم ترین اور بنیادی عقائد میں شامل نہیں سمجھتے۔حالانکہ جس پر ایمان لانا لازمی ہو اس کے متعلق عقیدہ بنیادی ہی ہوسکتا ہے کیونکہ دین کی بنیاد ایمان پر ہی ہے۔ حسین احمد مدنی صاحب کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:
’’امام مہدی سے متعلق احادیث نہ صرف صحیح و ثابت ہیں بلکہ متواتر اور اپنے مدلول پر قطعی الدلالت ہیں جن پر ایمان لانا بحسبِ تصریح علامہ سفارینی واجب اور ضروری ہے۔ اسی بناء پر ظہورِ مہدی کا مسئلہ اہل سنت والجماعت کے عقائد میں شمار ہوتا ہے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ اسلام کے اہم ترین اور بنیادی عقائد میں داخل نہیں ہے۔‘‘ (الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ۔ از حسین احمد مدنی۔ ص۔ 7)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب لکھا کہ:
’’ اول تو یہ جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہماری ایمانیات کی کوئی جُز یا ہمارے دین کے رُکنوں میں سے کوئی رُکن ہو بلکہ صد ہا پیشگوئیوں میں سے یہ ایک پیشگوئی ہے جس کو حقیقتِ اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جس زمانہ تک یہ پیشگوئی بیان نہیں کی گئی تھی اُس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘ (ازالۂ اوہام حصہ اول۔صفحہ۔ 140۔روحانی خزائن جلد 3-صفحہ۔171)
تو لوگوں نے ایک شور مچادیا کہ نزولِ مسیح کے عقیدہ کو ایمانیات سے خارج کردیا لیکن اب آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ یہ علماء کبھی  عقیدہ ٔظہورِ مہدی کو  ایمان کا جزو بتاتے ہیں اور کبھی خود ہی اسے بنیادی عقائد سے خارج کردیتے ہیں۔
آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حافظ محمد ظفر اقبال صاحب نے ابن سیرینؒ اور ملا علی قاری ؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ امام مہدی خلفاء راشدینؓ سے ہی نہیں بلکہ بعض انبیاء علیہم السلام سے بھی افضل ہوں گے۔ اس تصریح کو نظر انداز کرتے ہوئے اب وہ لکھتے ہیں:
’’اہل سنت والجماعت امام مہدی کو نہ تو مامور من اللہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کا درجہ انبیاء کرام علیہم السلام کے برابر جانتے ہیں۔‘‘ (اسلام میں امام مہدی کا تصور۔ ص۔ 36)
 سوال  یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امام مہدی ؑ نہ مامور من اللہ ہیں اور نہ ان کا مرتبہ انبیاء کے برابر ہے تو پھر اُن پر ایمان لانا کیوں لازمی ہے اور ان کا منکر کافر کیوں قرار دیا گیا ہے؟
امام مہدی میں کمالات نبوّت ہونگے
حضرت امام ربانی، مجدّد الف ثانی ، شیخ احمد سرہندی ؒ فرماتے ہیں
’’جاننا چاہئے کہ منصب نبوت حضرت خاتم الرسل علیہ و علیٰ آلہٖ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہوچکاہے لیکن اس منصب کے کمالات سے تابعداری کے باعث آپ کے تابعداروں کو بھی کامل حصہ حاصل ہوا ہے۔ یہ کمالات طبقہ صحابہ میں زیادہ ہیں۔ اور تابعین اور تبع تابعین میں بھی اس دولت نے کچھ کچھ اثر کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد یہ کمالات پوشیدہ ہوگئے ہیں اور ولایت ظلی کے کمالات جلوہ گر ہوئے ہیں۔ لیکن امید ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد یہ دولت ازسرنو تازہ ہو اور غلبہ اور شیوع پیدا کرے۔ اور کمالات اصلیہ ظاہر ہوں اور ظلیہ پوشیدہ ہوجائیں۔ اور حضرت مھدی علیہ الرضوان ظاہر و باطن میں اسی نسبت علیّہ کو رواج دیں گے۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی،مکتوب۔31 ، دفتر اول، صفحہ۔184، ادارہ اسلامیات ، لاہور)
امام مہدی رحمۃ للعالمین ہوں گے
’’ فالمھدي رحمۃ اللہ کما کان رسول اللہ ﷺ قال تعالی: ﴿وَمَا أَرْسَلْنٰکَ إِلَّا رَحْمَۃً لَّلْعَا لَمِیْنَ﴾ والمھدي یقفو أثرہ لا یخطیء، فلابد أن یکون رحمۃ۔بہرحال امام مہدی ؓ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے ایک رحمت ہوں گے جیسے رسول اللہ ﷺ جملہ عالمین کے لئے ایک رحمت ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔(پ ۱۷، الانبیاء ۱۰۷) ’’اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے‘‘ اور امام مہدی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ ﷺ کے نقشِ قدم پر ہوں گے اسی لیے وہ خطاء نہ کریں گے اس معنی پر آپ کا رحمت ہونا ضروری ہے۔‘‘ (قیامت کی نشانیاں ۔ ترجمہ الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، مصنف علامہ محمد بن عبد الرسول البرزنجی ۔ صفحہ۔172۔ مترجم  علامہ مفتی ابو الصالح محمد فیض احمد اویسی ۔صفحہ۔۴۷۴)
مہدی ایک نہیں بہت سے ہیں
مہدی کا لغوی معنی ہے ’’ہدایت یافتہ ‘‘ یعنی ایسا شخص جو کسی سے ہدایت پاکر رہنمائی کرے۔ جبکہ ’’ہادی ‘‘ کا مطلب ہدایت دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مقدّس ناموں میں ایک نام ’’ہادی ‘‘ بھی ہے۔جبکہ قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء مہدی ہوتے ہیں جو ہادی یعنی اللہ تعالیٰ سے ہدایت پاکر انسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔اسی طرح ہر نبی مہدی ہے لیکن ہر مہدی نبی نہیں جیسا کہ ہر نبی صالح ہے لیکن ہر صالح نبی نہیں۔مندرجہ ذیل احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے تمام خلفاء الراشدین اور دیگر صحابہؓ کو بھی مہدی کہہ کر پکارا ہے۔ پہلے بیان کیا جاچکا ہے علامہ جلال الدین السیوطیؒ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بھی مہدی کہا جاتا تھا ۔
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ (ابوداؤد کتاب السنّۃ، ترمذی کتاب العلم)
تم پر میری اور میرے خلفاء الراشدین المہدییّن کی سنت کی پیروی واجب ہے۔
حضرت ابوسلمہؓ کی وفات پر نبی اکرم ﷺ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللّھُمَّ اغْفِرْلِاَبِیْ سَلَمَۃَ وَارْفَعْ دَرَجَتَہٗ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ    اے اللہ ابی سلمہ کی مغفرت فرما اور اس کا درجہ مہدیین تک بلند فرما  (مسلم کتاب الجنائز)
حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ کو دعا دیتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
اللّٰہُمَّ ثَبِّتْہٗ وَاجْعَلْہُ ھَادیًّا مَھْدِیًّا    اے اللہ! اسے ثباتِ قدم بخش اور اسے ہادی و مہدی بنا۔   (بخاری کتاب الجہاد، مسلم کتاب الفضائل)
تین مہدی
ابی عبداللہ نعیم بن حماد کے نزدیک مہدی تین ہیں جن میں مہدی الدین عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہی ہیں۔
’’المھدیون ثلاثۃ؛ مھدی الخیر، و ھو عمر بن عبدالعزیز، و مھدی الدم، و ھو الذی یسکن علیہ الدماء، و مھدی الدین، عیسی بن مریم علیہ السلام، تسلم امتہ فی زمانہ۔‘‘ (کتاب الفتن۔صفحہ 359-)
مہدی تین ہیں؛ مہدی الخیر وہ عمر بن عبدالعزیز ہیں، مہدی خونی وہ ہے جس پر خون ٹھہر جائے گا، اور مہدی ٔ دین عیسی ابن مریم علیہ السلام جن کے زمانہ میں ان کی امت ان پر ایمان لے آئے گی۔
علماء امام مہدی ؑ کے مخالف ہوں گے
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب حضرت امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو سب لوگ ان پر ایمان لے آئیں گے۔لیکن  مندرجہ ذیل اقوال ثابت کرتے ہیں کہ علماء ان کی مخالفت کریں گے۔
’’منقول ہے کہ حضرت مہدی اپنی سلطنت کے زمانہ میں جب دین کو رواج دیں گے اور سنت کو زندہ فرمائیں گے تو مدینہ کا عالم جس نے بدعت پر عمل کرنے کو اپنی عادت بنائی ہوگی اور اسی کو حسن خیال کرکے دین کے ساتھ ملالیا ہوگا تعجب سے کہے گا کہ اس شخص نے ہمارے دین کو دور کردیا ہے اور ہمارے مذہب و ملت کو ماردیا اور خراب کردیا۔ حضرت مہدی اس عالم کے قتل کا حکم فرمائیں گے اور اس کے حسنہ کو سیۂ خیال کریں گے۔‘‘ (مکتوبات امام ربّانی ۔ مجدد الف ثانی ؒ ۔ مکتوب 255 ۔ جلد اول ص۔558، ناشر اسلامی کتب خانہ اردو بازار، لاہور)
’’فرمایا زبان ظہور مہدی بہت سخت و خوفناک ہے۔ اکثر لوگ مخالف ہوں گے۔ وہ خود امام مستقل ہوں گے۔ تقلید حنفی و شافعی کی اس وقت نہ رہے گی۔ اکثر علماء اسی وجہ سے مخالفت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اس وقت ایمان سلامت رکھے۔ برحمۃ و بحرمۃ نبیہ المصطفیٰ ﷺ۔‘‘ (مولوی اشرف علی تھانوی ۔ از امداد المشاق الیٰ اشرف الاخلاق ۔ صفحہ ۔85)
’’علماء اس کے قتل کے فتوے دیں گے اور بعض اہل دول اس کے قتل کے لئے فوجیں بھیجیں گے۔‘‘ (الصراط السّوی فی احوال المہدی۔ ص:507۔مصنف مولوی سیّد محمد سبطین السرسوی)
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا کام ۔ غلبہ اسلام یا مسلمانوں کی حکومت ؟
ہمارے مخالفین احادیث کی من گھڑت تشریحات کے مطابق یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت امام مہدی ؑ جب تشریف لائیں گے تو مسلمانوں کی حکومت ساری دنیا میں قائم ہوجائے گی۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ، یہی خیال یہود کاحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی تھا کہ جب وہ آئیں گے تو ساری دنیا میں ان کی باشاہت قائم ہوجائے گی۔ لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں روحانی بادشاہت کی بشارت دی تو انہیں سخت مایوسی ہوئی اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موعود مسیؑح ماننے سے انکار کردیا۔ اسی طرح سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ان کا سب سے بڑا یہی اعتراض ہے کہ یہ کیسا امام مہدی ہے جس کے آنے پر کسی ایک ملک میں بھی حقیقی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنین دنیا میں علو اور حکومتیں نہیں چاہتے ۔ ان کیلئے دارالآخرۃ ہے اور متقیوں کیلئے تو عاقبت ہی ہے ۔
تِلْکَ الدَّارُ اْلاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِیْ الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (القصص۔28:84)
یہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم ان لوگوں کیلئے بناتے ہیں جو زمین میں نہ (اپنی)بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد۔ اور انجام تو متقیوں ہی کا ہے۔
اس آیت کریمہ کی تائید میں آ نحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جس طرح اسلام اپنے ابتدائی دور میں غریب تھا اسی طرح اپنے آخری دور میں بھی اس کے پاس حکومت و بادشاہت نہیں ہوگی بلکہ ابتدائی دور کی طرح اس کا کام لوگوں کی روحانی اصلاح کرنا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے مطابق یہ روحانی اصلاح مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ شامل ہونے والے غریب لوگوں کے ذریعے ہوگی۔ یاد رہے کہ عربی زبان میں غریب مالی طور پر غریب نہیں بلکہ وطن سے دور پردیسی کو کہا جاتا ہے۔ یہ حالت جماعت احمدیہ کے افراد پر صادق آتی ہے جو اپنے وطن سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیروکار مؤحد تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے تھے اور تورات کی تعلیم پر عمل کرتے تھے۔ انہیں مسیحی تاریخ میں ابیونی ( Ebionites) کہا جاتا ہے جس کا لفظی مطلب ’’غریب ‘‘ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے آخری زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ملنے والوں کو بھی غریب قرار دیا ہے۔چنانچہ آپ ؐ فرماتے ہیں:
بَدَءَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا سَیَعُوْدُ کَمَا بَدَءَ: فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبَاءَ۔فَقَالُوْا وَ مَن الْغُرَبَاء ؟ قَالَ الْفَرَارُوْنَ بِدِیْنِھِمْ یَبْعَثَھُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ یَوْمَ الْقَیَامَۃِ مَعَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ
اسلام غربت کی حالت میں شروع ہوا تھا اور پھر اپنی پہلی حالت کو لوٹ جائے گا۔ پس غریبوں کو مبارک ہو۔ انہوں نے (یعنی صحابہ کرامؓ نے) پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ غرباء کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو اپنا دین بچانے کی خاطر فرار ہوکر قیامت کے قریب عیسی ابن مریم علیہ السلام سے جا ملیں گے۔ (مسلم کتاب الایمان ۔ کنزالعمال فصل فی قلۃ الاسلام و غربتہ)
امام مہدی ؑ نبی اکرم ﷺ کے مشن کی تکمیل کریں گے
قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کی ذات سے جو وعدے کئے جاتے ہیں ان کی تکمیل نبی کی جماعت کے ذریعے ہوتی ہے، اگرچہ اس کے آثار نبی کی زندگی میں ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ ارضِ موعود کا وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا گیا تھا لیکن وہ اس کی سرحد پر پہنچ کر فوت ہوگئے اور ان کی قوم اس میں داخل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دیگر ادیان پر غالب کردے:
ھُوَالَّذِی اَرسَلَ رَسُولَہُ بِالھُدٰی وَ دِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہٖ، وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیداً (الفتح۔۹۲)
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے دین(کے ہر شعبہ) پر کلیۃً غالب کردے۔ اور گواہ کے طور پر اللہ بہت کافی ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں کہ امام مہدی ؑ آنحضرت ﷺ کے مشن کی تکمیل فرمائیں گے:
مواعید کا ایفاء: ازانجملہ مواعید کا ایفاء ہے کہ حق جلّ و علیٰ نے اپنے رسول کو ان سے موعود فرمایا۔ پس ان میں سے بعض کا ایفاء پیغمبر کے ہاتھ سے ہوا اور بعض کی آپؐ کے نائبوں کے ہاتھ سے تکمیل ہوئی۔ چنانچہ ارشاد ہے ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہَرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (توبہ وغیرہ) وہ ذات پاک ہے وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب ادیان سے ممتاز کردے۔دین کی ابتداء و انتہا: ظاہر ہے کہ ظہورِ دین کی ابتدا پیغمبر ﷺ کے زمانے میں ہوئی اور اس کی تکمیل حضرت مہدی علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوگی۔ اور ایسا ہی قیصر و کسریٰ کے املاک اور ان کے خزائن کا مالک ہونا آنحضرت ﷺ سے اس کا وعدہ کیا گیا تھا مگر ظہور اس کا خلفائے راشدین سے ہوا۔اتمام امراللہ: منجملہ مذکورہ امور کے ایک اتمام امر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس پر مامور ہوئے تھے اور اس کی ادائیگی امام سے بھی ظاہر ہوئی۔ چنانچہ قرآن میں ہے: قُلْ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا (اعراف) کہہ دیجئے کہ اے لوگو میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔اور ظاہر ہے کہ تبلیغِ رسالت تمام انسانوں کی نسبت آنجناب سے ثابت نہیں بلکہ امرِ دعوت حضور سے شائع ہوکر یومًا فیومًا خلفائے راشدین اور ائمہ مہدیینؒ کے واسطے سے ترقی کو پہونچا۔ یہاں تک کہ امام مہدی علیہ السلام کے واسطے سے تکمیل پائے گا۔‘‘ (منصبِ امامت از شاہ اسماعیل شہیدؒ ۔ ص 108, 109)
تمام مفسرین متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ اگرچہ غلبۂ اسلام کا یہ وعدہ نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ ہونا بیان کیا گیا ہے لیکن اس کا ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام اور مسیحؑ موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوگا۔لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ غلبہ سنتِ انبیاء علیہم السلام کے مطابق اُن کی جماعت کے ہاتھ سے ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ (المائدۃ ۔ ) پس یقینًا اللہ ہی کا گروہ ہے جو غالب آنے والے ہیں۔اگرچہ اس غلبہ کی بنیادیں مسیؑح و مہدی ؑ کے ہاتھ سے رکھ دی جائیں گی۔ اس کا ثبوت مندرجہ ذیل حدیث ہے:
’’ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، ’’مجھے جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیاہے اور میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی ہے اور میں سویا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں‘‘ ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ تو چلے گئے اور تم ان خزانوں سے عیش و آرام کرتے ہو یا اس جیسا کوئی کلمہ فرمایا‘‘ (ّبخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
دلائل و براہین سے غلبہ!
قرآن و حدیث کے مطابق غلبۂ اسلام دلائل و براہین کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے تیروتفنگ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۔۔۔لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْم  بَیِّنَۃٍ وَّ یَحْیٰي مَنْ حَیَّ عَنْم  بَیِّنَۃٍ۔۔۔
تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کے ذریعہ ہلاک کیا جائے اور جو زندہ ہو وہ دلیل کے ذریعہ زندہ کیا جائے (سورۃ الانفال۔8:43)
حدیث میں بھی دجّال سے مقابلہ اسلحہ کے ساتھ نہیں بلکہ دلائل و حجت سے کئے جانے کا ذکر ہے
إن یخرج و أنا فیکم فأنا حجیجُہ دونکم، وإن یخرج و لستُ فیکم فامرؤ حجیجُ نفسہ واللہ خلیفتي علی کل مسلم۔۔۔
اگر دجال میری زندگی میں نکل آیا تو میں  اس سے حجت کروں گا اور اگر وہ میرے بعد نکلا تو ہر شخص اس کے ساتھ حجت کرے اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدّجّال)
تفسیر الکشاف اور تفسیر قرطبی میں آیت ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہَرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کی تفسیر میں لکھا ہے
’’و قیل ھو عند نزول عیسی حین لا یبقیٰ علی وجہ الارض کافر۔ و قیل ھو اظہارہ بالحجج والآیات
اور کہا جاتا ہے کہ یہ نزولِ عیسیٰ کے وقت ہوگا جب روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہیں رہے گا اور کہا جاتا ہے کہ یہ دلائل و نشانات کے ذریعہ ہوگا(تفسیر الکشاف ) ای بالحجۃ والبراہین    یعنی بدلائل و براہین (تفسیر القرطبی)
علاماتِ مسیؑح و مہدی ؑ کے تضادات اور ان کی تاویلات     ۔   عذرِ گناہ بدتر از گناہ!
مسیؑح و مہدی ؑ کی آمد کی علامات کا پس منظر اور ان کا مقام و مرتبہ بیان کرنے کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے متعلق احادیث، جن پر عقیدہ رکھنے اور سیّدنا حضرت مسیؑح موعود کا دعویٰ بظاہر ان کے خلاف ہونے کی بناء پر یہ علماء احمدیت کا انکار کرتے ہیں، کس قدر متضاد ہیں اور ان تضادات کو دور کرنے کے لئے علماء نے کیا کیا تاویلات کی ہیں جو عذرِ گناہ بدتر از گناہ سے کم نہیں ہیں۔
امام مہدی کو دلہن کی طر ح  سجایا جائے گا
’’ ثم یأتی الناس المھدی فیزفونہ کما تزف العروس إلی زوجھا‘‘ (علامہ ابن حجر الہیثمی المکی ۔القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر صفحہ۔74)
پھر لوگ مہدی کے پاس آئیں گے اور اسے  سجائیں گے جس طرح دلہن اپنے شوہر کے لئے سجائی جاتی ہے۔
’’۔۔۔ فَأَتَی النَّاسُ الْمَھْدِیَّ فَزَفُّوْہُ کَمَا تُزَفُّ الْعَرُوْسُ اِلیٰ زَوْجِھَا لَیْلَۃَ عِرْسِھَا۔۔۔‘‘ (سیّد حسین احمد مدنی ۔ الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ۔ صفحہ۔48)
۔۔۔بعد ازاں لوگ مہدی کے پاس آئں گے اور انہیں دلہن کی طرح آراستہ و پیراستہ کریں گے۔۔۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج 15-ص198-)‘‘
یہاں مولوی صاحب ترجمہ میں  ڈنڈی مار گئے ہیں اور پورے جملہ کا ترجمہ نہیں کیا جو کچھ اس طرح ہے ’’بعد ازاں لوگ مہدی کے پاس آئیں گے اور انہیں  آراستہ و پیراستہ کریں گے جس طرح دلہن شب عروسی  کے لئے  اپنے شوہر کی خاطر تیار ہوتی ہے۔‘‘ یہی روایت  مشہور تابعی مجاہد ؒ کے  حوالہ سے محمد ظفر اقبال فاضل جامعہ اشرفیہ نے اپنی کتاب ’’اسلام میں امام مہدی کا تصور‘‘ کے صفحہ 107  پر درج کی ہے۔ لیکن کسی بھی عالم دین نے اس پر تبصرہ نہیں کیا کہ امام مہدی کو دلہن کی طرح تیار کرنے کا کیا مطلب ہے۔ آیا یہ تیار کرنا ظاہری معنوں میں ہوگا یا کوئی تمثیلی اور استعارۃً بات کی جارہی ہے۔
صلیب توڑنے کی تاویل
احادیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں صلیبیں اور خنزیر موجود ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عیسٰی علیہ السلام یہی کام کرتے رہیں گے تو غلبہ اسلام کا کام کب کریں گے۔ چنانچہ علماءِ اسلام نے صلیب توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کی یہ تاویل کی ہے کہ وہ عیسائیت کے باطل عقائد کا خاتمہ کردیں گے۔مفتی محمد رفیع صاحب اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ سعید بن المسیّبؒ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ وہ وقت ضرور آئے گا جب تم میں (اے امت محمدیہ) ابن مریم حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوکر صلیب کو توڑیں گے (یعنی صلیب پرستی ختم کردیں گے )۔‘‘ (علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیؑح ۔ از مفتی محمد رفیع عثمانی۔ صفحہ۔45، ناشر مکتبہ دارالعلوم، کراچی)
چیونٹی سے مراد آدمی
مفتی صاحب نے اسی کتاب میں مندرجہ ذیل حدیث کی تشریح میں چیونٹی سے مراد آدمی لئے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ایک آگ جو عدن کی گہرائی سے نکلے گی (اورلوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی، چھوٹی اور بڑی چیونٹی کو جمع کردے گی (یعنی ہر چھوٹے بڑے، ضعیف اور قوی آدمی کو محشر میں جمع کردے گی ) طبرانی، حاکم، ابن مردیہ، اور کنز العمال ‘‘ (ایضًا صفحہ۔71)
لفظ کافر حقیقت یا احتمال؟
احادیث میں لکھا ہے کہ جب دجال ظاہر ہوگا تو اس کے ماتھے پر دونوں آنکھوں کے بیچ لفظ ’’کافر ‘‘ لکھا ہوگا جسے ان پڑھ مسلمان بھی پڑھ سکے گا۔ اس کی تاویل کرتے ہوئے مفتی رفیع صاحب لکھتے ہیں:
’’ظاہر یہی ہے کہ یہ لفظ حقیقۃً لکھا ہوگا اور اللہ تعالی کی قدرت سے یہ بعید بھی نہیں، لیکن احتمال یہ بھی ہے کہ حدیث میں "لکھا ہوا ہونے " کے حقیقی معنی مراد نہ ہوں بلکہ استعارہ کے طور پر اس کی دونوں آنکھیں اس کے کافر ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہوں گی کیونکہ وہ کانا ہونے کے باوجود خدائی کا دعوی کرے گا جس سے ہر مومن پہچان سکے گا کہ وہ کافر ہے۔ " (ایضًا ۔حاشیہ صفحہ۔81)
لفظ ’’درمیان ‘‘ کی تاویل
متعدد احادیث کے ذریعے مسلمانوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی علیہ السلام ایک ہی وقت اور ایک ہی علاقہ میں ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ لیکن مفتی صاحب کی خود نقل کردہ مندرجہ ذیل حدیث بتارہی ہے کہ امت محمدیہ کے شروع میں نبی اکرم ﷺ، درمیان میں امام مہدی اور آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ایسی امت ہرگز ہلاک نہیں ہوگی جس کے اول میں میں ہوں اور آخر میں عیسی علیہ السلام اور درمیان میں مہدی۔ نسائی، ابو نعیم، والحاکم و ابن عساکر و کنزالعمال والسراج المنیر‘‘(ص۔73 )
اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش میں مفتی صاحب نے لفظ درمیان کی تاویل کرتے ہوئے لکھا:
درمیان سے مراد آخری زمانہ سے متصل پہلے کا زمانہ ہے۔ اس لئے کہ عیسٰی علیہ السلام کا نزول امام مہدی کے زمانہ میں ہوگا، اور وہ امام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔‘‘ (حاشیہ ص۔73)
لفظ درمیان کے دو معانی ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی چیز کے نقطہ الف اور نقطہ ب کے درمیان ہونے کا مطلب ہے کہ وہ چیزیا تو دونوں نقاط کے درمیان کسی بھی جگہ پائی جاسکتی ہے یا دونوں کے عین درمیان میں اس طرح کہ اس کا فاصلہ دونوں نقاط سے برابر ہو۔ عربی زبان میں اوّل الذکر کیفیت کو ’’بین ‘‘ اور انگریزی میں “between”جبکہ مؤخر الذکر کیفیت کو ’’وسط ‘‘ یا ’’اوسط ‘‘ جبکہ انگریزی میں “middle” کہا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث ، جس میں امام مہدی ؑ کو نبی اکرم ﷺ اور مسیؑح موعود کے درمیان قرار دیا گیا ہے وہاں لفظ ’’بین ‘‘ نہیں بلکہ ’’اوسط ‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے عین درمیان ۔ یعنی امام مہدی ؑ کا زمانی فاصلہ نبی اکرم ﷺ اور مسیؑح موعود، دونوں سے یکساں ہونا چاہئے۔ جبکہ دوسری احادیث میں امام مہدی ؑ اور مسیؑح موعود کو شانہ بشانہ کام کرتے بتایا گیا ہے۔اسی الجھن کو دور کرنے کے لئے مفتی صاحب نے لفظ ’’اوسط ‘‘ کا ترجمہ وہ کیا ہے جو دراصل ’’بین ‘‘ کا ترجمہ ہے۔
لیکن مفتی رفیع صاحب کی تاویل میں الجھن یہ ہے کہ انہوں نے امام مہدیؑ کے دور کو، جسے رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں درمیانی دور قرار دیا ہے، آخری دور سے متصل اور پہلے کہا ہے۔ اگر ایسا مان بھی لیا جائے تب بھی امام مہدی ؑ اور مسیؑح موعود کی ملاقات ناممکن ہے کیوں کہ کسی چیز کے کسی دوسری چیز سے متصل اور پہلے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں پہلی چیز ختم ہوتی ہے وہاں دوسری شروع ہوتی ہے۔جیسے ایک مکان دوسرے سے متصل ہوتا ہے لیکن ساتھ جڑے ہونے کے باوجود دونوں مکان الگ الگ ہوتے ہیں۔چنانچہ ثابت ہوا کہ اگر امام مہدیؑ اور مسیؑح موعود کا دور متصل ہو تب بھی مسیؑح موعود کا دور امام مہدی کے دور ختم ہونے پر ہی شروع ہوگا۔
امام مہدی ؑ کے حسب و نسب کی تاویل
اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سادات میں سے ہونگے۔ اس عقیدہ کے پھیلنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ امام مہدی اور مسیح موعود کو الگ الگ شخصیات سمجھا جاتا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ شیعہ لوگوں کا پھیلایا ہوا ہے جو امامت و سیادت کوصرف حضرت فاطمہؓ کی اولاد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور امّت کے دیگر افراد کو تقویٰ اور بزرگی کے اعلیٰ معیار کے قابل نہیں سمجھتے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ۔ (سورۃ الحجرات۔ 49:14)۔
یقینًا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ وہ معزز ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے
اسی طرح آلِ رسول صرف نبی کی جسمانی اولاد تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس اگر رسول کی اپنی اولاد غیر صالح ہو تو وہ آلِ رسول کا حصہ نہیں کہلاتی جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت سے ثابت ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلایا کہ تو نے تو کہا تھا کہ تیری آل کو طوفان سے محفوظ رکھوں گا لیکن میری آنکھوں کے سامنے میرا بیٹا ڈوب رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ ج اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ۔۔۔ (سورۃ ھود۔ 11:47 )
اس نے کہا اے نوح! یقینًا وہ تیرے اہل میں سے نہیں۔ بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا۔
اس کے برعکس نبی کے ماننے والے صالحین متقین اس نبی کی آل میں شمار ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّہُ مِنَّي  میری ذریّت وہی ہے جو میری فرماں بردار ہے۔ (سورۃ ابراہیم۔14:37 ) لہٰذا ثابت ہوا کہ آلِ نبی ہونے کے لئے جسمانی اولاد ہونا ضروری نہیں۔ ایک حدیث سے ثابت ہے کہ محض اہلبیت میں سے ہونا تقویٰ اور بزرگی کے اعلیٰ معیار کا ضامن نہیں۔
رَجُلٍ مِنْ اَھْلِ بِیْتِی یَزْعُمُ اَنَّہُ مِنِّی وَلَیْسَ مِنِّی وَ اِنَّمَا اَوْلِیَاءِی الْمُتَّقُوْنَ (سنن ابی داؤد کتاب الفتن صفحہ۔507)
میرے اہل بیت میں سے ایک شخص یہ زعم کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے لیکن وہ مجھ سے نہ ہوگا اور یقینًا میرے دوست صرف متقی ہی ہیں۔
قام رسول اللّٰہ (ص) علی الصفا فقال: یا بنی ہاشم، یا بنی عبدالمطلب، انی رسول اللّٰہ الیکم، و انی شفیق علیکم، و ان لی عملی و لکل رجل منکم عملہ، لا تقولوا: اِن محمدًا منّا و سندخل مدخلہ، فلا واللّٰہ ما أولیائی منکم ولا من غیرکم یا بنی عبدالمطلب الا المتقون، ألا فلا اعرفکم یوم القیامۃ تأتون تحملون الدنیا علی ظھورکم و یأتی الناس یحملون الآخرۃ۔۔۔ (روضۃ الکافی۔155)
رسول اللہ ﷺ صفا پر کھڑے ہوئے اور کہا: ’’اے بنی ہاشم! اے بنی عبدالمطلب! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور میں تم پر شفیق ہوں۔ میرے لئے میرا عمل ہے اور تم میں سے ہر ایک مرد کے لئے اس کا عمل ہے۔ یہ مت کہنا کہ محمد ہم میں سے ہیں اور ہم ان کے داخل ہونے کی جگہ میں داخل ہوجائیں گے۔ ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم تم میں سے یا تمہارے غیر میں کوئی بھی میرے ولی نہیں مگر صرف متقی۔ آگا ہ رہو کہ روز قیامت اگر تم اپنی کمروں پر دنیا اٹھائے ہوئے لائے اور دوسرے لوگ آخرۃ اٹھائے ہوئے لائے تو میں تمہیں نہیں پہچانوں گا۔‘‘ (روضۃ الکافی۔ ص۔155)
دلچسپ بات یہ ہے کہ امام مہدی کے سادات میں سے ہونے کی روائتوں کے ساتھ ساتھ اسلامی لٹریچر میں یہ روایت بھی پائی جاتی ہے کہ ظہور امام مہدی کے وقت یہ کہہ کر اس کا انکار کردیا جائے گا کہ وہ بنی فاطمہؓ یا آلِ محمدؐ میں سے نہیں ہے۔چنانچہ بحارالانوار میں ابوجعفر اور ابو عبداللہ سے دو روایات مذکور ہیں جن کے مطابق امام مہدی سے کہا جائے گا کہ تو آلِ محمدؐ اور بنو فاطمہؓ میں سے نہیں ہے۔ یہ پیشگوئی سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس میں بتمام و کمال پوری ہوئی جب آپؑ کا یہ کہہ کر انکار کردیا گیا کہ آپؑ بنی فاطمہؓ اور آلِ محمدؐ میں سے نہیں ہیں۔ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نورِ الٰہی اور فیضانِ نبوت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کی مدد سے اپنے حکم و عدل کے منصب کو اعلیٰ شان سے نباہتے ہوئے جہاں سلسلہ نسب مہدی کی مختلف روایات کی بے مثل تطبیق فرمائی وہاں فارسی الاصل ہوتے ہوئے سادات سے اپنا رشتہ اور تعلق اس طرح بیان فرمایا:
’’سادات کی جڑ یہی ہے کہ وہ بنی فاطمہ ہیں۔ سو میں اگرچہ علوی تو نہیں ہوں مگر بنی فاطمہ میں سے ہوں۔ میری بعض دادیاں مشہور اور صحیح النسب سادات میں سے تھیں۔ ہمارے خاندان میں یہ طریق جاری رہا ہے کہ کبھی سادات کی لڑکیاں ہمارے خاندان میں آئیں اور کبھی ہمارے خاندان کی لڑکیاں اُن کے گئیں۔‘‘ (نزول المسیح صفحہ ۔50، روحانی خزائن ، جلد۔18، صفحہ ۔426حاشیہ در حاشیہ)
پیشگوئیوں کے عین مطابق علماء نے آپؑ کی اس دلیل کو ماننے سے انکار کردیا۔ لیکن خدا کی قدرت کے زبردست ہاتھ نے انہی علماء کے ہاتھوں سے آپؑ کی تائید میں تحریریں نکلوائیں۔ انور شاہ کشمیری صاحب علماء دیوبند میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ یہ صاحب تمام عمر خود کو سیّد لکھتے اور کہلاتے رہے جبکہ ان کے خاندانی شجرہ کے مطابق ان کا تعلق حضرت امام ابوحنیفہؒ کے خاندان سے تھا۔ ان کے معترضین نے اس بات کو خوب اچھالا اور ان کو نسب بدلنے کے طعنے دیتے رہے۔ ان کے صاحبزادے انظر شاہ مسعودی صاحب نے اپنے والد صاحب کی سوانح حیات ’’نقشِ دوام ‘‘ لکھتے ہوئے اس الزام کی صفائی دینے کی کوشش کی ہے اور ہوا یوں ہے کہ صفائی دیتے ہوئے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید کربیٹھے ہیں۔ انظر شاہ صاحب لکھتے ہیں:
اور یہ تو بالکل حقیقت ہے کہ اس خاندان میں ابتداء سے تا راقم الحروف سادات کی لڑکیاں یا اس خاندان کی لڑکیاں سادات میں آتی جاتی رہیں۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم کی والدہ سیّدہ تھیں۔ آپ کی اہلیہ سیّدہ تھیں۔ برادر اکبر مولانا ازہر شاہ صاحب کی موجودہ اہلیہ سیّدہ ہیں۔ خاکسار کی مرحومہ اہلیہ سادات سے تھیں میری ایک ہمشیرہ سادات ہی میں بیاہی گئیں۔ ایک برادر زادی خاندان سادات میں منسوب ہے۔ راقم الحروف کا پورا ننھیالی سلسلہ قصبہ گنگوہ کے سیّد خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ غرض یہ کہ چپ و راست میں سادات سے ایک طویل و عریض تعلق موجود ہے۔ مفسّرین و محققین علماء نے بعض آیات کے تحت واضح طور پر لکھا ہے کہ شرف نسب حاصل کرنے کے لئے اگر ننھیال سادات سے ہو تو اس کی جانب انتساب کرتے ہوئے خود کو سیّد کہنا و لکھنا جائز ہے۔ اس لئے خانوادہ انوری کے بعض افراد اگر خود کو سیّد لکھتے ہیں یا حضرت شاہ صاحب نے اپنے نام کے ساتھ سیّد کے ضمیمہ کو حرف غلط قرار نہیں دیا تو یہ کوئی مجرمانہ اقدام نہیں تھا جس کے لئے نصف صدی کے گذرنے پر بعض ناعاقبت اندیش قلم سزا دہی کے لئے پر تول رہے ہیں۔‘‘ (نقشِ دوام صفحہ۔22)
اسی طرح ایک اور مشہور و معروف دیوبندی عالم دین حسین احمد مدنی صاحب اپنا سلسلہ نسب سادات سے ثابت کرنے کے لئے اپنے والد صاحب اور ان کے پیرومرشد مولانا فضل رحمٰن صاحب گنج مرادآبادی کے خوابوں کا سہارا لیتے ہیں:
’’ والد صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ میں جبکہ صفی پور اور بانگر مئیو میں ہیڈماسٹر تھا اور لوگوں سے تذکرہ آتا تھا کہ میں سادات سے ہوں اور میرا خاندان پیرزادوں کا خاندان ہے تو لوگ تصدیق نہیں کرتے تھے کیونکہ اودھ کے شہروں میں ٹانڈہ کپڑوں کے بُننے والوں (نوربافوں) کی بستی مشہور تھا اور یہاں کے کپڑے واقع میں بہت امتیازی شان رکھتے تھے، ٹانڈہ کی آبادی کا بڑا حصہ اسی برادری کا ہے اس لیے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ بھی اسی قوم میں سے ہوں گے، مگر حضرت مولانا فضل رحمٰن صاحب گنج مرادآبادی قدس اللہ سرہٗ العزیز نے ایک روز بھرے مجمع میں فرمایا کہ ’’مدرس تو سیّد اور پیرزادے ہیں، ان کے مورثِ اعلیٰ شاہ نورالحق رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے اولیاء اللہ میں سے ہیں، رات میرے پاس وہ آئے تھے اور مجھ سے کہتے تھے کہ میرے بیٹے حبیب اللہ کا خیال رکھو، بھئی یہ تو بڑے پیرزادے ہیں‘‘ (حضرت مولانا قدس اللہ سرہ العزیز والد صاحب مرحوم کو مدرس کہہ کر پکارتے تھے) اُس کے بعد سے اُن کی نظر التفات مجھ پر بہت زیادہ ہوگئی اور لوگوں کے خیالات میرے نسب کے متعلق بدل گئے اور یہ مقالہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور ہوگیا۔۔۔نیز ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھ کو نسب نامہ کی تلاش تھی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ہوکر جہاد کو جارہے ہیں اور میں پاس کھڑا ہوں تو مجھ کو فرمایا کہ تُو میری اولاد میں سے ہے۔‘‘ (چراغِ محمد ﷺ۔ سوانح حیات حسین احمد مدنی۔ صفحہ ۷۳، ۷۴)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں خود کو مندرجہ بالا اصول کی بناء پر، جو خود علماء و مفسّرین کو بھی مسلّم ہے، سادات میں سے قرار دیا وہاں اپنا اہل فارس میں سے ہونا بھی ثابت فرمایااور اپنی کتاب ’’تریاق القلوب‘‘ میں اپنے خاندان کو خاندان مغلیہ اور خاندان سادات سے مرکب قرار دیا ہے(روحانی خزائن جلد۔15، صفحہ ۔287)۔ اس کے ساتھ ہی اسی کتاب میں حضور ؑ نے خود کوشیخ محی الدین ابن عربیؒ کی کتاب فصوص الحکم میں مندرج پیشگوئی کے مطابق چینی الاصل موعود کا مصداق بھی قرار دیا ہے (روحانی خزائن جلد۔15، صفحہ482, 483)۔
پیشگوئیوں کے عین مطابق علماء نے حضور ؑ کے ان تمام دعاوی کو غلط اور ایک دوسرے سے متضاد قرار دیتے ہوئے ردّ کردیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ خود احادیث میں حضرت امام مہدی ؑ کی مختلف بلکہ متضاد خاندانی نسبتوں کا ذکر موجود ہے۔ حافظ محمد ظفر اقبال صاحب (فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور) نے پروفیسر مولانا محمد یوسف خان صاحب (استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور ) کے افادت پر مبنی ایک کتاب ’’اسلام میں امام مہدی کا تصوّر ‘‘ تالیف فرمائی ہے جس کے ناشر بیت العلوم۔ 20 نابھہ روڈ چوک پرانی انارکلی، لاہور ہیں۔اس کتاب میں امام مہدی ؑ کے نسب کے متعلق مندرجہ ذیل احادیث درج کی گئی ہیں۔
’’امام مہدی حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے ہوں گے۔‘‘ [ابوداؤد کتاب المہدی] ‘‘(صفحہ63)
’’اس بات میں اختلاف ہے کہ امام مہدی حضرت حسنؓ کی اولاد میں سے ہوں گے یا حضرت حسینؓ کی اولاد میں سے۔۔۔‘‘(صفحہ:69)
’’حضور ﷺ نے (ایک مرتبہ) حضرت فاطمہؓ سے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا کہ ان دونوں یعنی حسنؓ اور حسینؓ کی اولاد میں سے مہدی ہوں گے، میرے چچا عباس کے خاندان سے۔‘‘ (صفحہ:70)
حضرت علیؓ نے فرمایا اور دیکھا اپنے بیٹے حضرت حسن کو اور کہا یہ بیٹا میرا سردار ہوگا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام رکھا اور عنقریب اس کی نسل سے ایک شخص پیدا ہوگا کہ وہ نام زد ہوگا تمہارے نبی ﷺ کے نام سے اور سیرت میں بھی انہیں سے مشابہ ہوگا مگر صورت میں مشابہ نہ ہوگا پھر ذکر کیا حضرت علیؓ نے قصہ یَمْلَاء الْاَرْضِ عَدْلًا کا (یعنی بھر دے گا زمین کو انصاف سے )۔ [ابوداؤد کتاب المہدی]
علامہ جلال الدین السیوطیؒ نے تاریخ الخلفاء میں ابن عساکر کے حوالے سے لکھا ہے کہ :
حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ میری اولاد میں ایک ایسا شخص ہوگا جو زمین کو اس طرح عدل سے بھردے گا جس طرح پہلے وہ ظلم سے بھری ہوگی۔(ص۔ 270، طبع اول از دار صادر، بیروت، 1997)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سادات، فارسی النسل ، مغل، ترک اور چینی ہونے کے ان دعاوی پر اعتراض اور استہزاء کرنے والے اس کتاب میں حضرت امام مہدی ؑ کی مختلف خاندانی نسبتوں کے بارے میں کیا توجیہات پیش فرماتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
’’مذکورہ بالا روایات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام مہدیؓ حضرت فاطمہ کی اولاد سے نجیب الطرفین سید ہونگے لیکن اس پر حضرت عثمانؓ کی روایت سے اعتراض لازم آتا ہے جس میں یہ ہے کہ امام مہدیؓ حضرت عباسؓ کی اولاد میں سے ہوں گے۔ (کتاب البرہان ج 2 ص 591 مرقاۃ المفاتیح ج 10ص175) اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن حجر ہیثمی مکیؒ تحریر فرماتے ہیں: (ویمکن الجمع بانہ لا مانع من ان یکون ذریتہ ﷺ و للعباس فیہ ولادۃ من جھۃ ان امھاتہ عباسیۃ والحاصل ان للحسن فیہ الولادۃ العظمی لان احادیث کونہ من ذریتہ اکثر و للحسین فیہ ولادۃ ایضا و للعباس فیہ ولادۃ ایضا ولا مانع من اجتماع ولادات المتعددین فی شخص واحد من جھات مختلفہ) (القول المختصر: ص۔23) ان مختلف روایات کو اس طرح جمع کرنا ممکن ہے کہ امام مہدیؓ (اصالۃٗ) تو حضور ﷺ کی ذریّت میں سے ہونگے اور(تبعًا) حضرت عباسؓ کی اولاد میں سے بھی اس اعتبار سے ہوں گے کہ ان کے سلسلہ نسب میں سب سے زیادہ حضرت حسنؓ کی نسبت نمایاں ہوگی اس لیے کہ اس قسم کی روایات زیادہ ہیں اس کے بعد حضرت حسینؓ اور پھر حضرت عبّاسؓ کی ولادت بھی اس میں شامل ہوگی اور ایک ہی شخص میں مختلف جہات سے متعدد ولادتوں کا جمع ہونا ممکن ہے۔ علامہ ابن حجر مکیؒ کے اس جواب کو آسان لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک آدمی کئی آدمیوں کی اولاد ہوسکتا ہے مثلًا ایک شخص کے سلسلہ ء نسب میں اس کے آباؤ اجداد میں سے کسی نے ایک عورت سے نکاح کیا جو مثلًاحضرت عباسؓ کے خاندان میں سے تھی، اس کے یہاں جو اولاد ہوئی اس نے حضرت حسینؓ کے خاندان میں سے کسی عورت کے ساتھ نکاح کرلیا پھر اس کے یہاں جو اولاد ہوئی اس نے حضرت حسنؓ کے خاندان کے ساتھ مناکحت کا تعلق کرلیا اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح امام مہدیؓ کے نسب کی روایات میں کوئی تعارض اور اختلاف باقی نہیں رہتا۔‘‘ (اسلام میں امام مہدی کا تصور۔ ص۔72)
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اہل بیت میں سے ہونا ایک اور جہت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کی قوم سے ایک ایسے شخص کے آنے کی خبر دی جو ایمان کو ثریا ستارے سے بھی کھینچ لائے گا اور اس کی بعثت آخرین میں ویسے ہی ہوگی جیسی آنحضرت ﷺ کی بعثت امیّین میں ہوئی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے ’’سلمان منّا اہل البیت ‘‘ کہہ کر حضرت سلمان فارسیؓ کو اپنے اہل بیت میں سے قرار دیا تو گویا اہل فارس میں سے آنے والا یہ عظیم الشان شخص یعنی حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل بیت میں شامل قرار پائے۔ان تمام باتوں سے جہاں سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ مہدویت سچّا ثابت ہوتا ہے وہاںیہ بات بھی صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ علماء ایک طرف تو حق کو چھپاتے ہیں اور عوام الناس کو اصل ماخذ تک رسائی حاصل نہیں کرنے دیتے اور دوسری طرف وہ جن تاویلات کے ذریعے اپنے مؤقف کو ثابت کرتے ہیں انہی تاویلات کا استعمال اپنے مخالفین کے لئے ناجائز قرار دے دیتے ہیں جو کہ نہ صرف علمی بلکہ اخلاقی بددیانتی بھی ہے۔
امامکم منکم کی تاویل:
نزولِ مسیح علیہ السلام کے بارے میں تواتر سے ایک بات کہی جاتی ہے کہ نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام مہدی کی امامت میں نماز پڑھیں گے۔عوام کے سامنے اس بات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے گویا دوسری کوئی ایسی حدیث موجود نہیں جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نماز پڑھانے کا ذکر موجود ہو۔ لیکن اس معاملے میں ذرا سی بھی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن میں یہ ذکر موجود ہے کہ نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز پڑھائیں گے۔
عَن اَبِی ھُرَیرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ کَیفَ اَنتُم اِذَا نَزَلَ ابنُ مَریَمَ فِیکُم فَاَمَّکُم۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،’’تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام تم میں اتریں گے اور امامت کریں گے تمہاری۔ (مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ علیہ السلام )
عَن اَبِی ھُرَیرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ کَیفَ اَنتُم اِذَا نَزَلَ ابنُ مَریَمَ فِیکُم فَاَمَّکُم مِنکُم قَالَِ اَبِِی اِبن ذِئبٍ ھَل تَدرِی مَا اَمَّکُم مِنکُم قُلتُ تُخبِرُنِی قَالَ فَاَمَّکُم بِکِتَابِِ رَبِّکُم عَزَّ وَ جَلَّ وَ سُنَّۃِ نَبِیّکُم ﷺ۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تمہارے درمیان اتریں گے پھر امامت کریں گے تمہاری تم میں سے ہی۔ ابن ابی ذئب نے کہا تو جانتا ہے اس کا مطلب کیا ہے، امامت کریں گے تمہاری تم میں سے۔ میں نے (ولید بن مسلم نے) کہا بتائیے ۔ا نہوں نے کہا کہ وہ تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی کی سنت کے مطابق امامت کریں گے۔
مفتی صاحب انہی الفاظ پر مشتمل ایک اور حدیث بیان کرتے ہوئے اور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ابھی مسلمان جنگ کی تیاری اور صفیں درست کرنے ہی میں مشغول ہوں گے کہ نماز (فجر) کی اقامت ہوجائے گی اور فورًا عیسیٰ ابن مریم نازل ہوجائیں گے اور (مسلمانوں ۳ کے امیر کو) ان کی امامت (کا حکم) فرمائیں گے ...(حاشیہ ۳) حدیث کے لفظ "فامہم " کا اصل ترجمہ تو یہ ہے کہ ’’پس آپ ان کی امامت فرمائیں گے ‘‘ اب اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ’’ اب آپ مسلمانوں کی قیادت اور امارت کے فرائض سرانجام دیں گے ‘‘۔اس میں تو کوئی اشکال ہی نہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اب آپ نماز میں ان کی امات کریں گے۔ اس پر اشکال ہوتا ہے کہ حدیث ۲میں گزر چکا ہے کہ نزول کے وقت نماز کی امامت حضرت عیسی علیہ السلام نہیں بلکہ امام مہدی کریں گے۔ اس اشکال کے دو جواب ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جس کی طرف ہم نے متن کے ترجمہ میں قوسین کی عبارت بڑھا کر اشارہ کردیا ہے کہ امامت فرمانے سے مراد امامت کا حکم دینا ہے کیونکہ عربی اردو میں بکثرت کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے فلاں شخص کو قتل کردیا اور مراد یہ ہوتا ہے کہ قتل کا حکم دیا، اور دوسرا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اس پہلی نماز کے بعد آئندہ نمازوں کی امامت مراد ہے۔ یعنی آئندہ نمازوں کی امامت حضرت عیسی علیہ السلام کیا کریں گے، اگرچہ نزول کے وقت نماز کی امامت امام مہدی کریں گے۔‘‘(حاشیہ ص۔55, 56)
بعض احادیث میں ’’فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ ‘‘ کی بجائے ’’وَ اِمَامُکُم مِنْکُمْ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں علماء نے امام کا مطلب مسلمانوں کا سربراہ اور خلیفہ لینے کی بجائے نماز پڑھانے والا امام مراد لیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو مسلمانوں کا امام(یعنی نماز پڑھانے والا امام) انہی میں سے یعنی مسلمانوں میں سے ہی ہوگا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُسی امام کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔اِس مفہوم پر مندرجہ ذیل اشکال وارد ہوتے ہیں:
·         پہلی مشکل: اگر مسلمانوں کا امام مسلمانوں میں سے ہی ہوگا تو اس کا مطلب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسلمانوں میں سے نہیں ہوں گے۔ حالانکہ ہمیں آج تک یہی بتایا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطور اُمّتی کے نازل ہوں گے اور امت محمدیہ کے ایک فرد ہوں گے۔ تو کیا اس کے باوجود وہ نماز پڑھانے کے اہل نہیں ہوں گے؟
·         دوسری مشکل: کیا مسلمانوں کو نماز پڑھانے والا امام ہمیشہ مسلمانوں ہی میں سے نہیں ہوا کرتا؟ اگرہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے تو پھر اس مقام پر تصریح کیوں کی گئی کہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے وقت مسلمانوں کا امام مسلمانوں میں سے ہی ہوگا؟
·         تیسری مشکل: ’’مِنْکُمْ ‘‘ کا صیغہ مخاطب کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی نبی اکرم ﷺ جب یہ ارشاد فرمارہے تھے تو آپؐ کے مخاطب صحابہ کرامؓ تھے۔ ایک اور حدیث میں اسے مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’یُؤْشَکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ یَّلقیٰ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ‘‘ یعنی قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہا اس کی ملاقات عیسیٰ ابن مریم سے ہوگی۔ لیکن وہ تمام لوگ جن سے مخاطب ہوکر یہ بات کہی گئی تھی وہ ایک ایک کرکے فوت ہوگئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کسی کی بھی ملاقات نہ ہوئی۔ تو کیا اب یہ سمجھا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب کبھی نازل نہیں ہوں گے کیونکہ جن کو خبر دی گئی تھی وہ تو سب کے سب فوت ہوگئے اور اُن میں سے کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نازل ہوتے نہیں دیکھا؟
·         چوتھی مشکل: دجّال کے قتل کے بعد دجّال کے قتل کی دعادارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث، بدر عالم میرٹھی صاحب اپنی کتاب ’’ترجمان السنّۃ ‘‘ کے باب ’’الامام المہدی ‘‘ میں اس مشکل مقام کی توجیہہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حدیث مذکور میں ’’وامامکم منکم ‘‘ کی شرح بعض علماء نے یہ بیان کی ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام جب نازل ہوں گے تو وہ شریعت محمدیہ ہی پر عمل فرمائیں گے اس لحاظ سے گویا وہ ہم ہی میں سے ہوں گے۔ اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہاں امام سے مراد امام مہدی ہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے زمانے میں نازل ہوں گے جب کہ ہمارا امام خود ہم ہی میں کا ایک شخص ہوگا۔ ان دونوں صورتوں میں امامت سے مراد امامت کبریٰ یعنی امیر و خلیفہ ہے‘‘ (الامام المہدی۔ صفحہ۔43 )
جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ احادیث سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ نزولِ عیسیٰ ؑ کے وقت مسلمانوں کا امام ان میں سے ہی ہوگا۔ لیکن ایک اور حدیث کے مطابق اپنے نزول کے بعد حضرت عیسیٰ ؑ ہی نماز پڑھائیں گے:
’’وَ یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ، فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہُ مِنْ رَکْعَتِہِ قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، قَتَلَ اللّٰہُ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالَ، وَ ظَھَرَ الْمُسْلِمُوْنَ‘‘
پھر عیسی ابن مریم نازل ہونگے، پس وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے، پس جب وہ اپنا سر اٹھائیں گے تو کہیں گے، سمع اللہ لمن حمدہ، اللہ مسیح دجال کو قتل کرے اور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے (موارد لظمآن الیٰ زوائد ابن حبان)
اس تضاد کو یہ علماء بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے اس طرح حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پہلی نماز تو امام مہدی ہی پڑھائیں گے لیکن اس کے بعد کی نمازیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پڑھائیں گے۔ حالانکہ ایسی کوئی تصریح ان احادیث میں موجود نہیں۔ مفتی صاحب اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے حسبِ عادت قوسین میں عبارات بڑھا کر اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں:
’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے، پس (سب سے پہلی نماز فجر کے علاوہ باقی نمازوں میں) مسلمانوں کی امامت فرمائیں گے، اور (نماز پڑھاتے ہوئے) رکوع سے سر اُٹھا کر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کے بعد(بطور دعا) فرمائیں گے ’’اللہ دجّال کو قتل کرے اور مومنین کو غالب کرے۔ سعایۃ حاشیہ شرح وقایہ بحوالہ صحیح ابن حبان، و مجمع الزوائد بحوالہ بزّار‘‘ (صفحہ۔71, 72)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کے تیار کردہ سکرپٹ یعنی مسوّدہ کے مطابق امام مہدی کی امامت میں پہلی نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ دروازہ کھولو۔ جب ان کے حکم کے مطابق دروازہ کھولا جائے گا تو باہر دجّال کھڑا ہوگا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی پانی میں نمک کی طرح گھلنا شروع ہوجائے گا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کرتے ہوئے بابِ لُدّ کے پاس پہنچ کر اسے قتل کردیں گے۔ یہ تمام معرکہ پہلی نماز کے بعد مکمل ہوجائے گا، یعنی دجال قتل ہوجائے گا تو بعد کی نمازوں میں پھر یہ دعا مانگنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دجال کو قتل کرے؟ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ دعا امام مہدیؑ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہوئے رکوع سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھیں گے کیوں کہ باجماعت نماز میں صرف امام ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ ‘‘ کہتا ہے، مقتدی نہیں کہتے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ الفاظ کہہ رہے ہیں تو ثابت ہوا کہ وہی امام ہوں گے۔
امام مہدی ؑ کی مختلف جائے پیدائش و جائے ظہور
مدینہ یا بلادِ مغرب؟
’’علامہ سید برزنجیؒ نے بھی الاشاعہ میں نعیم بن حماد ہی کی مذکورہ روایت کو نقل کرتے ہوئے حضرت امام مہدیؓ کی جائے پیدائش مدینہ منورہ کو قرار دیا ہے۔ جبکہ امام قرطبیؒ نے اپنی کتاب ’’التذکرۃ ‘‘ میں امام مہدی کی جائے پیدائش بلاد مغرب میں بیان کی ہے۔۔۔‘‘ (صفحہ : 76۔اسلام میں امام مہدی کا تصور از افادات پروفیسر محمد یوسف خان، استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور۔ مؤلف حافظ محمد ظفر اقبال، فاضل جامعہ اشرفیہ۔ ناشر بیت العلوم، 20 نابھہ روڈ پرانی انارکلی، لاہور)
مہدی مدینہ سے نکلے گا (ابوداد جلد4 ص88؛ کنزالعمال جلد7 ص186؛ حجج الکرامہ ص۔358)
اپنے مکان سے؟
’’ایک خلیفہ کی وفات کے وقت (نئے خلیفہ کے انتخاب پر مدینہ کے مسلمانوں میں) اختلاف ہوگا۔ ایک شخص (یعنی مہدی اس خیال سے کہ کہیں لوگ مجھے خلیفہ نہ بنادیں) مدینہ سے مکہ چلے جائیں گے۔ مکہ کے کچھ لوگ (جو انہیں بحیثیت مہدی کے انہیں پہچان لیں گے) ان کے پاس آئیں گے اور انہیں (مکان سے) باہر نکال کر حجر اسود و مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت (خلافت) کرلیں گے۔ ‘‘ [ابوداؤد کتاب المہدی](صفحہ ۔ 27۔ الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ از سیّد حسین احمد مدنی۔ ناشر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوۃ، حضوری باغ روڈ، ملتان)
کعبہ میں؟
’’حضرت مہدی علیہ السلام رکن اور مقامِ ابراہیم کے درمیان خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت آپ کو پہچان لے گی اور آپ کو مجبور کرکے آپ سے بیعت کرلے گی۔‘‘ (صفحہ۔4۔ الامام المہدی از بدر عالم میرٹھی ۔ ناشر مکتبہ سیّد احمد شہید، 10 الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور)
خراسان سے؟
’’ثوبانؓ جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جب تم دیکھو کہ سیاہ جھنڈے خراسان کی جانب سے آرہے ہیں تو ان میں شامل ہوجانا اگرچہ برف کے اوپر گھٹنوں کے بل چلنا ہی کیوں نہ پڑے کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ مہدی ہوگا (احمد و بیہقی) ‘‘ (صفحہ۔31, 32۔ الامام المہدی از بدر عالم میرٹھی ۔ ناشر مکتبہ سیّد احمد شہید، 10 الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور)
کدعہ سے؟
اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابنِ عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: یخرج المھدی عن قریۃ یقال لھا کدع۔ مہدی ایک گاؤں سے ظہور کریں گے اور اس کا نام کدعہ ہوگا۔(بحار الانوار جلد۔11 صفحہ۔551)
قحطان سے؟
مہدی قحطان سے پیدا ہوگا (کنزالعمال جلد 7، 189)
ماوراء النہر سے؟
’’ عَلی رضِی اللّٰہ عنہ یقول قال النبِی ﷺ: ’’یخرج رجل مِن وراءِ النھرِ یقال لہ الحارِث حراث ]الحارِث بن حراثِ[ علی مقدمتِہِ رجل یقال لہ منصور یوطِیء او یمکِن لِآلِ محمد کما مکنت قریش لِرسولِ اللّٰہ ﷺ وجب علی کلِ مومِن نصرہ او قال اِجابتہ‘‘(کتاب سنن ابی داؤد۔ کتاب المھدی )
حضرت علیؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ ماورا النھر سے ایک شخص نکلے گا جسے حارث کہا جائے گا اور وہ کسان ہوگا کسان کا بیٹا ہوگا۔ اس کے لشکر کے اگلے حصے میں منصور نامی ایک شخص ہوگا جو آل محمدﷺ کی تمکنت اسطرح بحال کرے گا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے قریش کی تمکنت بحال کی۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کی مدد کرے اور اسے قبول کرے۔


حضرت عیسٰی علیہ السلام کہاں نازل ہوں گے؟
بیت المقدس میں
’’عیسیٰ ابن مریم امام مہدی کی موجودگی میں بیت مقدس میں طلوع فجر کے وقت اتریں گے۔‘‘ (صفحہ۔45۔ الامام المہدی از بدر عالم میرٹھی ۔ ناشر مکتبہ سیّد احمد شہید، 10 الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور)
’’اس وقت ان کی (عربوں کی) تعداد کم ہوگی اور ان میں بیشتر بیت المقدس میں ہوں گے اور ان کے امام ایک مرد صالح مہدی ہوں گے۔ وہ ایک نیک انسان ہوں گے وہ ایک دن صبح کی نماز کی امامت کے لئے آگے بڑھیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوجائے گا۔۔۔‘‘(صفحہ۔47۔ الامام المہدی از بدر عالم میرٹھی ۔ ناشر مکتبہ سیّد احمد شہید، 10 الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور)
دمشق میں
’’وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) دمشق کے مشرقی جانب سفید منارے کے پاس نزول فرمائیں گے۔ ‘‘ (صفحہ۔51۔علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیؑح از مفتی محمد رفیع عثمانی ۔ ناشر مکتبہ دارالعلوم کراچی)
افیق کی گھاٹی میں؟
’’اور بالآخر مسلمان افیق ۱ نامی گھاٹی کی طرف سمٹ جائیں گے اور اپنے مویشی (چَرنے کے لئے) بھیجیں گے جو سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے، ان کو یہ نقصان بہت شاق گذرے گا اور شدید بھوک اور سخت مشقت میں مبتلا ہوجائیں گے حتّٰی کہ بعض لوگ اپنی کمان کا چلّہ جلا کر کھائیں گے۔۔۔اور نمازِ فجر کے وقت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے۔‘‘ (صفحہ۔67۔ علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیؑ ح از مفتی محمد رفیع عثمانی ۔ ناشر مکتبہ دارالعلوم کراچی)
اسی صفحہ پر حاشیہ میں افیق کی گھاٹی کا محلِّ وقوع بیان کرتے ہوئے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
’’حاشیہ۱۔ یہ دو میل لمبی گھاٹی اردن میں واقع ہے (حاشیہ بحوالہ معجم البلدان لیاقوت)‘‘ (ایضًا)
جبلِ دخان پر
’’پس مسلمان شام کے ’’جبل دخان ‘‘ کی طرف بھاگ جائیں گے اور دجّال وہاں آکر ان کا محاصرہ کرلے گا، یہ محاصرہ بہت سخت ہوگا اور ان کو مشقت میں ڈال دے گا۔ پھر فجر کے وقت عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے وہ مسلمانوں سے کہیں گے ’’اس خبیث کذّاب کی طرف نکلنے سے تمہارے لئے کیا چیز مانع ہے؟‘‘ مسلمان کہیں گے کہ یہ شخص جن ہے، (لہٰذا اس کا مقابلہ مشکل ہے۔)غرض مسلمان روانہ ہوں گے تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ان کے ساتھ ہوں گے۔(مسند احمد و مستدرک حاکم )‘‘ (علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیح ۔ ص 78, 79)
نزولِ مسیح علیہ السلام کی احادیث بیان کرتے وقت علماء دیگر تمام احادیث کو عوام سے چھپا کر انہیں صرف یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے شرقی جانب ایک سفید منارے کے پاس نازل ہوں گے۔ لیکن مذکورہ بالا کتب میں ایسی روایات کا بھی ذکر ہے جن میں دمشق کے شرقی سفید منارہ کے ساتھ ساتھ بیت المقدس، اردن اور مسلمانوں کے لشکر گاہ کا ذکر ہے۔ان حالات میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہاں نازل ہوں گے۔اس کی وضاحت میں مفتی صاحب لکھتے ہیں:
’’علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے حافظ ابن کثیر کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ایک روایت میں "دمشق کے مشرقی جانب " کی بجائے "بیت المقدس " کا لفظ ہے اور ایک روایت میں "اردن " اور ایک روایت میں مسلمانوں کی لشکرگاہ کا ذکر ہے کہ وہاں نازل ہوں گے۔ علامہ علی قاری نے بیت المقدس کی روایت کو ترجیح دی ہے جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر آج کل بیت المقدس میں کوئی سفید منارہ نہ بھی ہو تو اس وقت تک ضرور بن جائے گا۔‘‘ (ص۔51)
لیکن مفتی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ حضرت ملا علی قاریؒ کی اس ترجیح کی کیا دلیل ہے اور ہم کس بنیاد پر حضرت ملا علی قاریؒ کی اس ترجیح کو قبول کریں۔کیا اُن احادیث کے راوی ثِقہ نہیں ہیں جن میں باقی مقاماتِ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام بیان کئے گئے ہیں یا ان میں اسناد، روایت و درایت کا کوئی اور نقص ہے؟ بلا دلیل بات منوانے کی کوشش کے پس پردہ کیا وہی یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ والی بات تو نہیں؟
رومی لشکر کہاں حملہ کرے گا؟
احادیث میں رومی لشکر کے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی مختلف جگہیں بیان کی گئی ہیں۔ایسی صورت میں کسی ایک معین جگہ کے متعلق یقین کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ علماء کو لا محالہ اس کی تاویل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ان احادیث کے متعلق مفتی صاحب لکھتے ہیں:
’’حدیث میں لفظ 'المدینہ" ہے جس سے مدینہ منورہ بھی مراد ہوسکتا ہے لیکن عربی میں چونکہ ’’مدینہ‘‘ لفظ ہر شہر کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے ہوسکتا ہے یہاں اس سے شام کا مشہور شہر "حلب" ہی مراد ہو کیونکہ اعماق اور وابق کے قریب یہی بڑا شہر ہے۔ اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ بیت المقدس مراد ہے۔ واللہ اعلم‘‘ ( حاشیہ ص۔54)
دابۃ الارض آفتاب کے مغرب سے نکلنے سے پہلے نکلے گا یا بعد میں؟
"اس بیان کا حاصل یہ ہے کہ دابۃ الارض کا واقعہ آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے پیش آئے گا۔ مگر حاکم صاحب مستدرک نے راجح اس کو قرار دیا ہے کہ دابۃ الارض اس کے بعد نکلے گا۔ حاصل یہ کہ پہلے یا بعد میں ہونے کے بارے میں علما کے دو قول ہیں۔ واللہ اعلم۔' حاشیہ ص۔57
دجال باب لد پہ قتل ہوگا یا "افیق" کی گھاٹی میں؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام باب لد پہ دجال کو قتل کریں گے۔ (ترمذی کتاب الفتن)
’’پھر وہ یہاں سے چل کر شام آئے گا تو عیسی علیہ السلام نازل ہوجائیں گے اور "افیق" نامی گھاٹی کے پاس اسے قتل کردیں گے۔مسند احمد والدرالمنثور بحوالہ ابن ابی شیبہ ‘‘ (ص۔82)
’’ یہ گھاٹی اردن میں ہے اور اردن کی سرحد فلسطین سے ملی ہوئی ہے لہذا جن حدیثوں میں ہے کہ فلسطین میں باب لد کے پاس قتل کریں گے یہ حدیث ان کے معارض نہیں۔ اس گھاٹی کا ذکر حدیث میں بھی آیا ہے اس کی مراجعت کی جائے۔‘‘ حاشیہ ص۔82
نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد قیامت کب آئے گی؟
کافی عرصہ بعد
"علامہ قرطبی نے روایات کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کی وفات کے کافی عرصہ بعد جب دوبارہ اللہ کی نافرمانی اور کفر دنیا میں پھیلنے لگے گا اور دین اسلام کے اکثر حصے پر عمل ترک کردیا جائے گا تو اس وقت اللہ تعالی اس جانور کو زمین سے نکالے گا جو مومن کو کافر سے ممتاز کردے گا تاکہ کفار کفر سے اور فاسق اپنے فسق سے باز آجائیں، پھر یہ جانور غائب ہوجائے گا اور لوگوں کو سنبھلنے کی مہلت دی جائے گی۔ مگر جب وہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے تو آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے کا عظیم واقعہ پیش آجائے گا۔ جس کے بعد کسی کافر یا فاسق کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ پھر اس کے بعد جلد ہی قیامت آجائے گی۔" حاشیہ ص۔57
گھوڑی کے بچّہ کے جوان ہونے سے پہلے
"میں نے کہا یا رسول اللہ پھر دجال کے خروج کے بعد کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا عیسی ابن مریم نازل ہوں گے میں نے کہا تو عیسی ابن مریم کے بعد کیا ہوگا؟ فرمایا اگر کسی شخص کی گھوڑی بچہ دے گی تو قیامت آنے تک اس بچہ پر سواری کی نوبت نہیں آئے گی۔ کنزالعمال و ابن عساکر بحوالہ ابن ابی شیبہ" ص۔85
" اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد قیامت اتنی قریب ہوگی کہ اس گھوڑی کے بچہ پر سواری کی نوبت آنے سے پہلے ہی قیامت آجائے گی اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد جہاد کا سلسلہ قیامت تک منقطع رہے گا چنانچہ جہاد کی غرض سے کسی گھوڑے پر سواری نہ کی جائے گی۔ واللہ اعلم۔ محمد رفیع۔"حاشیہ ص85
ایک سو بیس سال بعد
"حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام کے نزول اور دجال کے بعد قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ عرب ایک سو بیس سال تک ان چیزوں کی عبادت نہ کرلیں جن کی عبادت ان کے آبااجداد کیا کرتے تھے۔ الاشاعۃ فی الاشراط الساعۃ"
حاشیہ۔ "بعض روایات حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام کی وفات کے بعد قیامت بہت جلد آجائے گی اور مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ایک سو بیس سال ضرور لگیں گے۔ اس سے دونوں روایتوں میں تضاد کا شبہ ہوتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ اگرچہ ایک سو بیس سال کی مدت ہو مگر یہ ایک سو بیس سال نہایت سرعت سے گزر جائیں گے حتی کہ ایک سال ایک مہینہ کے برابر اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر ایک دن ایک گھنٹہ کے برابر معلوم ہوگا۔"

لشکر سفیانی کہاں سے آئے گا ۔ مشرق سے یا مغرب سے؟
’’اس روایت پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس میں خروج سفیانی کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ مغرب سے خروج کرے گا جبکہ طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں حضرت ام حبیبہؓ سے اس سلسلے کی روایت ذکر کی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ وہ مشرق سے خروج کرے گا اور یہ بظاہر تضاد ہے۔ سیّد برزنجی ؒ نے اس تعارض کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس کی تاویل یوں کی جاسکتی ہے کہ سفیانی کی طرف سے بھیجا جانے والا لشکر روانہ تو عراق (مغرب) سے ہوگا لیکن چونکہ اس لشکر میں اہل شام بھی ہوں گے اس لیے ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے بعض مقامات پر اس لشکر کو شامی (مشرقی) کہہ دیا گیا ہے۔‘‘ (اسلام میں امام مہدی کا تصور از افادات پروفیسر محمد یوسف خان، استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور۔ مؤلف حافظ محمد ظفر اقبال، فاضل جامعہ اشرفیہ۔ ناشر بیت العلوم، 20 نابھہ روڈ پرانی انارکلی، لاہور۔ صفحہ۔ 95)
بحارالانوار میں علاماتِ امام مہدیؑ
امام مہدی ؑ اور مسیح موعود ؑ کے متعلق سُنّی کتب میں پائی جانے والی احادیث کے تضادات اور علماء کی من گھڑت تاویلات کے مندرجہ بالا مطالعہ اور انبیاء و مامورین کے متعلق پیشگوئیوں اور علامات کے پس منظر اور متعلقہ امورسے آگاہی کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ان متضاد احادیث پر نہیں بلکہ قرآن حکیم کی محکم آیات پر ہے۔اگرچہ شیعہ کتب حدیث میں امام مہدی علیہ السلام کے متعلق روایات کا بھی یہی حال ہے لیکن ذیل میں چند ایسی احادیث پیش کی جارہی ہیں جن میں موجود خبریں واضح طور پر پوری ہوچکی ہیں اور شیعہ احباب کو دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔
تلوار اور طاعون کی موت:
سلیمان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ: قداَّم القائم مَوتانِ: مَوتُ الاحمر و مَوتُ ابیض حتّٰی یذھب مِن کُلِّ سبعۃ خمسۃ۔ فَالمَوتُ الاحمر السِّیف والمَوت الابْیَض الطَّاعُون۔آپؑ نے فرمایا: ظہورِ امامِ قائم علیہ السّلام کے قبل دو قسم کی اموات ہوں گی۔ موتِ سرخ اور سفید موت، اور ان میں سے ہر سات میں سے پانچ آدمی ختم ہوجائینگے۔ سُرخ موت تلوار سے اور سفید موت طاعون سے واقع ہوگی۔ (اکمال الدین)‘‘ (بحار الانوار جلد بارہ، صفحہ96)
ظہورِ امامؑ سے قبل بھوک اور خوف:
’’امام قائم علیہ السّلام کے قیام سے قبل ایک سال لازمی ایسا آئے گا کہ لوگ بھوک اور فاقے میں مبتلا ہونگے اور انہیں قتل کا شدید خوف ہوگا، ان کو جان ومال اور پھلوں کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔۔۔(غیبۃ نعمانی)‘‘ ایضًا صفحہ۔138
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے دعویٰ سے پہلے 1857 ؁ء کا غدر مچا تھا جس میں تمام ہندوستانیوں کو جان مال اور رزق کا نقصان عظیم اٹھانا پڑا تھا۔ پھر اس کے بعد ہندوستان میں زبردست طاعون پھیلی تھی جس میں بہت لوگ ہلاک ہوئے تھے۔سو تلوار اور طاعون سے ہلاکتوں والی یہ دونوں علامات پوری شان کے ساتھ پوری ہوچکی ہیں۔
ترکی کی روم سے مخالفت:
’’تمہارے نبیؐ کے اہل بیت کی طرف سے دعوت آخر زمانہ میں ہوگی۔ لہٰذا جبتک تم لوگ اس دعوت کے قائد کو نہ دیکھ لو زمین پکڑلو اور خاموش رہو تاوقتیکہ ترک کے لوگ روم کی مخالفت کریں اور روئے زمین پر جنگوں کی کثرت نہ ہو۔۔۔(غیبۃ طوسیؒ )‘‘ ایضًا ۔ صفحہ۔105
ترکی کی عثمانیہ سلطنت کی اہل روم یعنی عیسائیوں کے ساتھ محاذ آرائی ایک تاریخی واقعہ ہے۔دنیا بھر میں جنگوں کی کثرت بھی، جن کی ابتداء جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم سے ہوئی ، تاریخی حقائق ہیں جو سیّدنا حضرت امام مہدی علیہ السّلام کے دور سے متصل زمانہ کے واقعات ہیں۔ان جنگوں کی خبر دیتے ہوئے حضورؑ نے فرمایا’کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں۔ چنانچہ اس علامت کے پورا ہوچکنے میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔
امام مہدیؑ مثیلِ عیسیٰ ؑ
’’امام مہدی۔۔۔۔تمام لوگوں کے مابین خَلق و خُلق، صورت و ہیئت میں حضرت عیسیٰ سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں گے۔(غیبۃ نعمانی)‘‘ ایضًا صفحہ۔135
طاق سال میں ظہور:
امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا: امام قائم علیہ السّلام کا ظہور کسی طاق سال میں ہوگا جیسے نو، یا ایک، یا تین، یا پانچ۔۔۔۔(غیبۃ نعمانی) ایضًا صفحہ۔151
23 تاریخ کو نام کا اعلان:
’’حضرت ابو عبداللہ علیہ السّلام نے فرمایا: 23 تاریخ کو امام قائم علیہ السّلام کے نام کا اعلان ہوگا۔۔۔(غیبۃ طوسی) ‘‘ ایضًاصفحہ۔152
جماعت احمدیہ کی بنیاد 23مارچ 1889 ؁ء کو رکھی گئی۔مندرجہ بالا علامات کے مطابق تاریخ بھی وہی ہے اور سال بھی طاق ہی ہے۔
امام مہدی ؑ کی مدت حکومت انیس سال چند ماہ؛
’’ حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت بیان کی ہے کہ: قال ؑ : اِنَّ الْقائم یملک تسع عشرۃ سنۃ و اشہرًا۔ آپؑ نے فرمایا: حضرت امام قائم ؑ انیس سال اورچند ماہ حکومت کریں گے۔ (غیبۃ نعمانی) ‘‘ ایضًا صفحہ۔ 268
یہ روایت ایک ایسی زبردست روایت ہے جس کی موجودگی میں کسی دوسرے نشان کا مطالبہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے 23 مارچ 1889 ؁ء کو جماعت کی بنیاد رکھتے ہوئے پہلی بیعت کا آغاز فرمایا اور پھر 26 مئی 1908 ؁ء کو انتقال فرماگئے۔ یہ تمام مدّت حیرت انگیز طور پر انیس سال اور دو ماہ بنتی ہے جو مندرجہ بالا پیشگوئی کے عین مطابق ہے۔ ’اک نشاں کافی ہے گر ہو دل میں خوف کردگار‘۔

امام مہدیؑ مرسلین میں سے ہے:
اِذَا قام القائم ؑ : قال: فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَھَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘
جب امام قائم علیہ السّلام ظہور کریں گے تو (حضرت موسیٰ ؑ کی طرح )یہ کہیں گے، پس میں تم میں سے راہ فرار اختیار کرگیا جب میں تم سے خوفزدہ ہوگیا تھا اور میرے پروردگار نے مجھے حکمت عطا کی اور مجھے مرسلین میں سے قرار دیا گیا۔(اکمال الدین)‘‘ ایضًا صفحہ۔236
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا کہ میں محض ایک مصلح یا مجدّد نہیں ہوں بلکہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے میرا نام نبی اور رسول رکھا ہے۔ چنانچہ مندرجہ بالا علامت بھی آپؑ ہی کی ذات میں پوری ہوتی ہے کیونکہ آپؑ کا واضح اعلان ہے کہ میں مرسلین میں سے ہوں اور یہی بات امام مہدی کے متعلق مندرجہ بالا علامت میں بیان کی گئی ہے۔
ابتداء میں امام مہدی ؑ کا انکار کیا جائیگا:
’’لوخرج القائم ؑ لقد انکرہ الناس۔ جب امام قائم ؑ کا ظہور ہوگا تو لوگ ان کو ماننے سے انکار کریں گے۔(غیبۃ طوسی) ‘‘ ایضًا۔صفحہ۔246
’’رفعت رایۃ الحق لعنہا اھل الشّرق و الغرب۔‘‘  جب حق کا علم بلند ہوگا تو تمام اہل مشرق و مغرب اسکو برا کہیں گے۔ (غیبۃ نعمانی)  ایضًا صفحہ۔401
امام مہدی ؑ کا نام احمد ہوگا:
’’حذیفہ کا بیان ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت امام مہدی علیہ السّلام کا ذکر ہورہا تھا کہ میں نے سنا کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا :اِنّہٗ یبایع بین الرّکن والمقام اسمہٗ احمد و عبداللّٰہ و المہدی فہٰذہ اسماؤہٗ ثلاثتہا۔ ان (امام مہدیؑ ) کی بیعت رکن و مقام کے درمیان ہوگی۔ ان کے تین نام ہیں: احمد، عبداللہ اور مہدی۔(غیبۃ طوسی) ‘‘ ایضًا صفحہ۔253
امام امر جدید کے ساتھ ظہور کریں گے
’’امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ امام قائم علیہ السلام امرِ جدید و کتابِ جدید اور فیصلۂ جدیدہ کے ساتھ ظہور کریں گے۔‘‘ ایضًا صفحہ۔386
امام اسلام کو جدید انداز میں پیش کریں گے
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ وہی کریں گے جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا ۔ یعنی اپنے پہلے کے تمام رواسم کو ختم کردیں گے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے ایّام جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو ختم کردیا تھا اور اسلام کو ایک جدید انداز میں پیش کریں گے۔ (غیبۃ نعمانی)۔‘‘ ایضًا صفحہ 382, 383

ایم ٹی اے کی پیشگوئی:
’’ ابو ربیع شامی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کو فرماتے ہوئے سنا: جب ہمارے قائم کا ظہور ہوگا تو اللہ تعالیٰ ہمارے شیعوں کی قوّت سماعت اور قوّت بصارت میں اتنا اضافہ کردے گا کہ ان لوگوں اور امام قائم ؑ کے درمیان قاصد کی ضرورت نہ رہے گی، امام اپنے مقام پر بیٹھے بیٹھے جو کچھ فرمائیں گے وہ یہ لوگ سنیں گے اور جب نظر اٹھائیں گے تو اپنے امام کی زیارت کرلیں گے۔ (الخرائج و الجرائح)۔ کتاب کافی میں ابو علی اشعری نے حسن بن علی کوفی سے، انہوں نے عباس بن عامر سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ (کافی) ‘‘ ایضًا صفحہ۔ 346
نشریاتی لہروں کا گھروں میں داخل ہونا:
’’فضیل کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کو فرماتے ہوئے سنا: ہمارا قائم اس وقت آئے گا جب لوگ اللہ کی کتاب سے غلط تاویلیں اخذ کرکے آپ کے سامنے دلیلیں پیش کریں گے مگر خدا کی قسم امام قائم ؑ ان لوگوں کے گھروں میں اپنا عدل اس انداز سے قائم کریں گے جس طرح ان کے گھروں میں سردی اور گرمی داخل ہوکر اپنا اثر و نفوذ قائم کرلیتی ہیں۔ (غیبۃ نعمانی) ‘‘ ایضًا صفحہ۔ 399
ذریعہ مواصلات (ٹی وی وغیرہ)
’’اور اپنے اسناد کے ساتھ مرفوعًا ابنِ مسکان نے روایت کی ہے کہ: میں نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کو فرماتے ہوئے سنا : یقول ؑ : اِنَّ المؤمن فی زمان القائم و ھو بالمشرق لیریٰ اَخاہ الّذی فی المغرب، و کذا الّذی فی المغرب یریٰ اخاہ الّذی فی المشرق۔ آپؑ فرمارہے تھے کہ امام قائم ؑ کے دور میں اگر کوئی مرد مومن مشرق میں ہوگا اور وہ اپنے برادر کو جو مغرب میں ہوگا دیکھنا چاہے گا تو دیکھ لے گا اور اسی طرح مغرب والا مشرق والے کو دیکھ لے گا۔‘‘ ایضًا صفحہ۔426
امامِ زمانہ کے دور میں مہینے میں دوبار تنخواہ اور سال میں دو بونس
حضرت ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام کے زمانہ میں مہینہ میں دوبار تنخواہ ملا کرے گی اورسال میں دو دفعہ عطا کیا جائے گا اور علم وحکمت اس قدر زیادہ ہوگا کہ ایک عورت گھر بیٹھے کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرے گی۔(غیبۃ نعمانی)۔ ایضًا صفحہ 381, 382
عجمی قرآن کی تعلیم دیں گے
’’امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ کوفہ کی مسجد میں عجمی قرآن کی تعلیم دے رہے ہیں۔‘‘ ایضًا صفحہ۔403